افتخار علی المعروف اُستاد پیارے خان
کسی عالم دین نے مرحوم افتخار علی المعروف اُستاد پیارے خان کیلئے کہا تھا کہ پیارے خان کی آواز میں نور ہے۔ آپ آج بھی اُستاد پیارے خان کی آواز میں کوئی منقبت سنیں یا سوز و سلام، آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ واقعی اس آواز میں نور تھا۔ بہت کم ایسے انسان ہوتے ہیں جن کیلیے محاورتا نہیں حقیقت میں ایسا کہا جا سکے کہ وہ آج بھی زندہ محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے مرحوم استاد نصرت فتح علی خان کے علاوہ اُستاد پیارے خان کیلئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اب بھی زندہ ہیں۔
ایسے کتنے ہی بے مثال کلام ہیں جنہیں پیارے خان نے پڑھا اور ایسا پڑھا کہ وہ ان کے نام سے ہی منسوب ہوگئے۔ ان میں اُستاد گوہر جارچوی کے “خون ہم بہاتے ہیں، زخم ہم سجاتے ہیں” سے لیکر “ہے مشورہ اے محترم ناد علی ؑپڑھتے رہو ” جیسے لازوال کلام تک اور “ویر دی لاش تے رونا چاہواں” سے لیکر “رونا اے اپنی عاقبت لئی، زینب ؑ تے کوئی احسان نہیں” جیسے دلسوز کلام تک کتنے ہی سوز و سلام و منقبت ہیں جنہیں پیارے خان صاحب کے بعد کئی منقبت و سوز خواں حضرات نے پڑھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی پیارے خان کے اثر سے باہر رہ کر یہ کلام نہ پڑھ سکا۔ “رب جانے تے حسین ؑ جانے”، یہ کلام لا تعداد پڑھنے والوں نے بہت عقیدت اور خوبصورتی سے پڑھا لیکن جیسا پیارے خان نے پڑھا ویسا کوئی نہ پڑھ سکا۔
میرا تو خیر کہیں شمار ہی نہیں لیکن جب کبھی بھی پیارے خان کا پڑھا ہوا کوئی کلام پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تو دل چاہتا ہے کسی طرح اُسی انداز، اُسی تلفظ اور اُسی اسلوب سے پڑھ سکوں جیسے پیارے خان نے پڑھا لیکن ظاہر ہے، پیارے خان بس ایک ہی تھے، جن کی آواز میں نور تھا۔
۔
اندرون موچی دروازے میں ایک قدیمی امام بارگاہ ہے جسے امام بارگاہ اکبر شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں لگاتار دو تین سال صفر کے مہینے میں مرحوم عبدالحکیم بوترابی خمسہ مجالس پڑھا کرتے تھے۔ ان کے خطاب سے پہلے مرحوم پیارے خان سوز و سلام پڑھا کرتے تھے۔ امام بارگاہ کا بہت چھوٹا سا صحن تھا اس لیے عزاداروں کی بڑی تعداد تاحد نظر باہر گلی میں موجود ہوتی تھی۔ ان خمسہ مجالس میں پیارے خان نے اپنی زندگی کے یادگار کلام پڑھے تھے جن پر سننے والوں کے ساتھ ساتھ مرحوم عبدالحکیم بوترابی بھی بار بار داد دیتے رہے تھے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے اس چھوٹے سے صحن میں بیٹھ کر یہ کلام سنے تھے اور پیارے خان کو سینے اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر داد دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے دیکھا تھا۔
ماڈل ٹاون ایچ بلاک کی یادگار مجالس میں بھی پیارے خان جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کو اُن کا نام “نہ پوچھئے کہ کیا حسین ؑہے” جیسے لازوال کلام کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ یاد تھا۔ لاہور کی یادگار قدیمی امام بارگاہ عطیہ اہلیبیت علیھم السلام میں پیارے خان مجلس شام غریباں میں مخصوص کلام پڑھنے کیلئے آتے تھے۔ پہلا کلام اُردو زبان میں “کیسی یہ خزاں آئی زہرا ؑ کے گلستاں میں” اور پھر ایک پنجابی کلام “ویر دی لاش تے رونا چاہواں، رون نہ دیوے کوئی” پڑھتے تھے۔ محسوس ہوتا تھا جیسے پیارے خان نے امام بارگاہ عطیہ اہلیبیت علیھم السلام کے در و دیوار کو بھی گریہ کروا دیا ہے۔ وہ در و دیوار آج بھی مجلس شام غریباں میں پیارے خان کی آواز کا انتظار کرتے ہونگے۔
۔
سنہ 2007 میں لاہور جاوا ہاوس کی سالانہ مجلس میں جانا ہوا۔ وہاں اُستاد پیارے خان کے کسی شاگرد نے سوز و سلام پڑھا اور پڑھنے سے پہلے افتخار علی پیارے خان کیلیے دعائے صحت کروائی جو شدید علیل تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل بیٹھ سا گیا۔ یو ٹیوب پر اُن کے جنازے کی ویڈیو نظر سے گزری جس میں شہزادہ حسن رضا کی انجمن شہزادہ پارٹی کے نوحہ خواں گریہ کرتے ہوئے یہ نوحہ پڑھ رہے تھے:
“پڑی تھی لاش رن میں بے کفن سبط پیمبرؑ کی”
۔
اُستاد پیارے خان جیسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں۔ یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں سے ملے بغیر ان کے دل میں گھر کر لیتے ہیں، یہ ہزاروں لاکھوں لوگ جب جب ان کے پڑھے ہوئے کلام سنتے ہیں تو انہیں دل سے یاد کرکے دعائیں کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش ایسے نایاب لوگ اتنی جلدی دنیا سے نہ چلے جاتے لیکن پھر یہ سوچ کر مطمئن بھی ہوجاتے ہیں کہ پیارے خان اب وادی السلام میں سلام و منقبت سناتے ہونگے۔ سننے والے داد دیتے ہونگے اور پیارے خان سینے اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر شکریہ کہتے ہوئے مصرعہ دہراتے ہونگے:
“رب جانے تے حسین ؑ جانے”
مرحوم افتخار علی پیارے خان کے درجات میں مزید بلندی کیلئے التماس سورہ فاتحہ و صلوات۔