تذکرہِ اہل بیتؑ

آمدِ شاہِ خراسان امام علی ابنِ موسی الرضاؑ

میں نے بہت لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ مکہ المکرمہ میں بہت زیادہ جلال ہے۔ نفسا نفسی اور افراتفری کا سا عالم ہوتا ہے۔ انسان جب تک وہاں رہتا ہے اُس کے دل پر ہیبت طاری رہتی ہے۔ مدینہ المنورہ کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں سکون ہے، اطمینان ہے اور ٹھہراو ہے۔ سنا تھا کہ وہاں کی ہواوں میں مٹھاس ہے۔
۔
میں جب پہلی بار مکہ گیا تو واقعی میں نے ایسا ہی محسوس کیا۔ میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مکہ سے کوئی جذباتی وابستگی محسوس نہیں ہوتی۔ بھلا ایسا کیسے ممکن ہے؟ خانہ خدا آپ کے سامنے ہو، ذہن میں حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مولودِ کعبہ مولا علی علیہ السلام کا خیال ہو، مقامِ ابراہیمؑ، حجرِ اسود، صفا و مروہ، زم زم، رکنِ یمنی، اور پھر مکہ کے پہاڑ اور گلیاں آپ کے سامنے ہوں تو دل بار بار کسی اور زمانے میں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی بار دل چاہتا ہے کہ یہ تعمیر شدہ بلند و بالا عمارتیں کچھ لمحوں کیلئے آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں اور آنکھوں کے سامنے کسی بہت پرانے دور کے مکے کا منظر سامنے آجائے۔ لیکن اس شہر کی تاثیر میں جلال ہے، یہاں کی فضا میں رعب ہے اور شاید خوف بھی۔ یہ رب العالمین کا شہر ہے۔

۔

لیکن جب میں پہلی بار مدینہ المنورہ میں بس سے نیچے اترا تو سانس لیتے ہی احساس ہوا جیسے کوئی مٹھاس ہے جو سانسوں کے ذرئعے جسم میں سرایت کر گئی ہے۔ یہاں میرے دل میں یہ خیال بالکل نہ آیا کہ کوئی ان بلند و بالا عمارتوں کو آنکھوں سے کچھ لمحوں کیلئے اوجھل کردے۔ شاید مدینہ کی ہواوں کی مٹھاس نے دل کو اِس جانب متوجہ نہ ہونے دیا۔ میں نے لوگوں سے بالکل صحیح سنا تھا۔ مدینہ واقعی بہت میٹھا تھا۔ مدینہ کے بدلے ہوئے اور غیر متوقع نقشے کے باوجود میرے دل میں وہاں مدینہ کا وہی نقشہ ابھرا، جو بچپن سے اس شہر کے بارے میں پڑھ پڑھ کے اور نعتیں سن سن کے قائم ہوا ۔ یہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شہر ہے۔

۔

جو مٹھاس میں نے مدینہ کی فضاوں میں محسوس کی، وہی مٹھاس میں نے اس وقت محسوس کی جب میں نے اس مقدس سرزمین پر قدم رکھا جسے مشہد مقدس کہتے ہیں۔ میں نے مشہد میں خوشبوئے مدینہ محسوس کی تو خیال آیا کہ ہر امام اہلیبیت علیھم السلام کی طرح امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو بھی مدینہ سے بہت محبت تھی، لیکن انہیں اپنے جد ص کے شہر میں رہنے نہ دیا گیا۔

مشہد کی فضاوں میں بے انتہا اپنائیت تھی، اتنی اپنائیت کہ مجھے ایک لمحے کیلئے بھی محسوس نہ ہوا کہ یہاں پہلی بار آیا ہوں۔ مجھے مشہد کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں بچپن میں یہاں آچکا ہوں، انسیت اپنے عروج پر تھی لیکن ذہن اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر تھا کہ مجھے مشہد کی گلیوں میں اپنا بچپن کیوں یاد آرہا ہے۔ کچھ بہت خاص تعلق تھا۔ ایسا تعلق کہ مشھد کو الوداع کہتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اپنے گھر سے واپس پردیس جا رہا ہوں۔

یہ تعلق فقط مجھ تک محدود نہ تھا۔ مشہد آنے والے ہر زائر کے دل کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ اس شہر کی فضائیں اسے پیغام دیتی ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کی نظر کرم اس پر مرکوز ہے، وہ امام رضا علیہ السلام کے لطف و کرم کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے دل کی ہر وہ بات امام رضا علیہ السلام کے گوش گزار کردے جو وہ کسی اور سے نہیں کہنا چاہتا۔ لوگ یہاں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ آتے ہیں اور مولا رضا علیہ السلام ان ٹوٹے دلوں کو جوڑ کر واپس بھیج دیتے ہیں۔ یہ ضامن آہو امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کا شہر ہے۔

۔

یہ طوس میں بننے والی ایک تنہا قبر کی تاثیر ہے، غریب الغرباء کی قبر مطھر کی تاثیر۔ وہ غریب الغرباء جن کے بارے میں ان کے جد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا:

میرے جسم کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن کیا جائے گا۔ غم و اندوہ میں مبتلا ہر وہ شخص جو اِس کی زیارت کرے گا اللہ بزرگ و برتر اُس کے غموں کو دور کر دے گا اور ہر گناہ گار جو اس کی زیارت کو جائے گا، خدا اُس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

(وسائل الشیعہ ج 10 ص 437)

یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مطھر کے اسی ٹکڑے یعنی سلطان عرب والعجم امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی آمد کی مبارک ساعتیں ہیں۔ تمام محبان اہلیبیت علیھم السلام کو یہ با برکت ساعتیں بہت مبارک۔