تذکرہِ اہل بیتؑ

معرفتِ امامؑ زمانہ از نور درویش

پاکستان میں بسنے والا شاید ہی کوئی شیعہ ہوگا جس نے اپنی زندگی میں “معرفتِ امامؑ زمانہ ” کے الفاظ نہ سن رکھے ہوں۔ میں نے بھی لاتعداد بار یہ لفظ سنے۔ کبھی مجالس میں، کبھی کسی سیمینار میں اور کبھی کردار سازی کے عنوان سے منعقد ہونے والی نشستوں میں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ لفظ سن کر آپ کے ذہن میں کیا خاکہ بنتا ہے لیکن جو خاکہ میرے ذہن میں بنا، یہ تحریر اُسی خاکے کے بارے میں ہے۔ تحریر کو ایک طالب علمانہ اظہار خیال سمجھا جائے کیوں کہ عین ممکن ہے کہ میرا تجزیہ اور مشاہدہ جزوی یا مکمل طور پر درست نہ ہو۔ البتہ جو سوالات میرے ذہن میں کچھ عرصے سے پیدا ہوتے آئے، اِس تحریر میں اُن کا تذکرہ اِس نیت سے کرنے کی کوشش کروں گا کہ شاید اِس تحریر کی بدولت مجھے کچھ سوالات کے درست جواب مل جائیں اور شاید کسی پڑھنے والے کو بھی ایک دعوتِ فکر مل جائے۔
۔
اللہ رب العالمین جو تمام عالم کا خالقِ مطلق ہے، کیا اُس سے میرا یا مخلوق کا تعلق فقط احساس جرم، احساسِ ندامت اور خوف کا ہے؟ یا ایک تعلق اُس محبت، اُنسیت، چاہت، رحمت اور احساسِ تحفظ کا بھی ہے جس کی یاد دہانی وہ خالقِ مطلق اپنے کلامِ میں موجود ہر سورت کے آغاز میں یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ وہ بہت زیادہ مہربان ہے اور بہت رحم کرنے والا ہے؟ جو اِسی کلامِ مبین میں اپنے بندے کو مخاطب کرکے اُس کی دلجوئی کرتا ہے کہ گناہگار ہو؟ میری رحمت سے مایوس مت ہو، میں تمہارے تمام گناہ بخش دوں گا۔

اگر اُس خدا سے میرا تعلق فقط احساسِ جرم، احساسِ ندامت اور خوف کا نہیں تو میں کس طرح اپنے دل کو قائل کر لوں کہ اُسی خدا کی آخری حجت ؑ سے میرا تعلق صرف احساسِ جرم، احساسِ ندامت، خوف اور شرمندگی کا ہو سکتا ہے؟ جو خداوند کریم بار بار اپنے بندے سے اپنا تعارف یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ اے میرے بندے تمہارا خالق بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اُسی خداواند کریم کی آخری حجت ؑ اپنے چاہنے والوں کیلئے بلکہ تمام مخلوق کیلئے کتنی کریم، رحیم اور مہربان ہوگی؟ اُسؑ ذاتِ کے تصرف اور اختیار کی حد کیا ہوگی جو رب العالمین کی آخری حجتؑ اور رحمت للعالمینؐ کی آخری وارث ہے؟

اِسی بنیادی سوال اور دعوتِ فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اِس تحریر کا کافی حصہ میں نے سنہ 2020 میں نومبر کے مہینے میں لکھ کر محفوظ کر لیا تھا لیکن مکمل نہ کر سکا۔ البتہ ایک بار پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ سوال اور یہ تحریر، ہر روز میرے ذہن میں موجود ہوتے تھے۔ میں کئی بار اِن سوالوں کے ذہن میں دہراتا تھا۔ یہاں تک کہ 2021 کا سال آگیا اور شعبان المعظم کا آغاز ہوگیا اور میں نے خود سے یہ وعدہ کر لیا کہ خلوصِ نیت کے ساتھ یہ تحریر مکمل کرکے بارگاہ امام زمانہ عج میں ہدیہ کروں گا۔ شاید اس کے وسیلے سے مجھے میرے سوال کے جواب بھی مل جائیں اور جہاں اصلاح کی گنجائش ہو تو اصلاح بھی ہوجائے۔ یہ تحریر میں نے سال 2021 میں لکھی جسے آج سال 2024 میں پندرہ شعبان کی متبرک تاریخ میں اپنی ویب سائٹ پر نشر کر رہا ہوں۔
۔
بحیثیت ایک پاکستانی شیعہ، میں جب بھی “معرفتِ امامؑ زمانہ ” کے الفاظ سنتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک یہ تصویر اُبھرتی ہے کہ کوئی مجلس یا نشست ہے جہاں ایک مقرر بہت پشیمانہ انداز میں اپنے سامعین کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اُن کی وجہ سے امام زمانہ عج کتنے اُداس ہیں، کس طرح اُن کی وجہ سے ظہور میں تاخیر ہورہی ہے، یہ تمام سامعین اپنے مقصد سے کتنے غافل ہیں، اصل راستے سے کتنا دور ہیں، ان کا گریہ رسم تو ہے لیکن مقصد سے کتنا خالی ہے، مجھ یعنی مقرر سمیت ہم سب ظہور کیلئے زمین ہموار کرنے کی کوشش نہیں کر رہے اور اس جیسے بہت سے ایسے جذباتی جملے جو سننے والوں کو احساسِ جرم میں مبتلا کردیں کہ آج اگر ظہورِِ امام زمانہ عج نہیں ہو رہا تو وجہ کچھ اور نہیں بلکہ وہ ہیں۔ میں ایسی فکر کی ترویج کرنے والوں کی نیت پر شک کر رہا ہوں اور نہ ہی اُنہیں غلط کہنے کی جسارت کر رہا ہوں بس میری اُلجھن یہ ہے کہ میں اپنے امام وقتؑ کو اُن کی کرامت، رحمت، بڑائی، اپنے چاہنے والوں کیلئے اُنؑ کی محبت اور اُنؑ کی طاقت و ولایت کی وجہ سے یاد کیوں نہیں کر سکتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں جب جب اپنے امامؑ کو یاد کروں تو پہلے خود کو اِس احساسِ جرم میں مبتلا کروں کہ میری وجہ سے میرے امامؑ کا ظہور نہیں ہو رہا؟

اِسی سے متعلقہ سوال یہ بھی ہے کہ سوائے خدائے بزرگ و برتر کے اور حجتِ خداؑ کے، ہم میں سے کون ظہور کے وقت کا تعین کر سکتا ہے؟ اگر کوئی تعین نہیں کر سکتا تو کوئی یہ قیاس کیسے کر سکتا ہے کہ ظہور میں تاخیر کی وجہ کون ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ ظہور قائم ؑ کے منتظر رہو اور رحمت پروردگار سے مایوس مت ہو۔ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل انتظار فرج ہے۔
اس فرمان مبارک سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہور کا انتظار بذات خود ایک عظیم عمل اور عبادت ہے بالکل اسی طرح جیسے غم امام حسین علیہ السلام میں گریہ کرنا رسم یا سعی لا حاصل نہیں بلکہ ائمہ اہلیبیت علیھم السلام کے واضح فرامین اور سیرت کی روشنی میں بذات خود ایک عظیم مقصد اور عمل ہے۔
۔
کیا ہمارا اپنے امامِ وقتؑ سے تعلق فقط “احساسِ جرم” کا ہے؟ کیا ہم اپنے امامؑ سے محبت کا اظہار خود کو مطعون کیے بغیر نہیں کر سکتے؟ کیا میری ذمہ داری ظہورِِ امامؑ میں تعجیل کیلئے دعا کرنے کی، اُنؑ کا انتظار کرنے کی ہے یا اُن کے ظہور کیلئے “کوشش” کرنے کی؟ اگر خدا کی آخری حجتؑ کے ظہور کیلئے مجھے کوشش کرنی ہے، زمین ہموار کرنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ذاتِ مطھر جس نے کرہ ارض کو عدل و انصاف سے پُر کرنا ہے، وہ ظہور کیلئے نعوذ باللہ میری کوششوں کی محتاج ہے؟ غیبتِ امامِ زمانہ عج کے زمانے کے حوالے سے جو چند روایات میری نظروں سے گزریں، اُنہیں پڑھ کر مجھے تو یہی سمجھ میں آیا کہ بحیثیت ایک شیعہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں اپنے امامؑ کے ظہور کا شدت سے انتظار کروں، اُس کیلئے دعا کروں اور خود کو ایسا بناوں کہ جب میرے امامؑ اگر میری زندگی میں ظہور فرمائیں تو میں اپنا چہرہ اُنؑ کو دکھا سکوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے امامِ وقتؑ تک یہ التجا پہنچاوں کہ میں آپؑ کا محتاج ہوں، آپ سراپا قوت و رحمت ہیں، آپؑ کے ظہور میں میری اور اِس دنیا کی پریشانیوں کا حل ہے۔ نہ کہ میں خود کو احساسِ جرم میں مبتلا کرکے امامؑ کو یہ بتاوں کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپؑ کے ظہور کیلئے کوشش نہیں کر سکا اور نہ راستہ ہموار کر سکا۔ یہ ولایت و تصرف کی حامل حجتِ خداؑ کی شان کے خلاف ہے کہ اُنؑ کا ظہور مجھ جیسے حقیر کی “کوشش” اور میری ہموار کی ہوئی زمین کا محتاج ہو، نعوذ باللہ۔ میرا ذہن یہ تسلیم نہیں کر پاتا۔
۔
یہاں مجھے مولانا اسد علی شاکری نجفی کا اپنے اُستاد علامہ طالب جوہریؒ سے کیا گیا سوال یاد آتا ہے جب اُنہوں نے دریافت کیا تھا کہ غیبت کے دور میں ایک شیعہ کی ذمہ داری کیا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں ہر طرف مختلف فکر کے گروہ موجود ہیں، ہر ایک کے اپنے نعرے ہیں، سب کے اپنے جھنڈے ہیں، الگ الگ پارٹیاں ہیں۔ ایسے میں ایک عام شیعہ کی ذمہ داری کیا ہے؟ علامہ طالب جوہریؒ نے جواب دیا تھا کہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہو اور شیعوں کو حفاظت کے ساتھ امام زمانہ عج تک پہنچا دو۔ بس اس سے بہتر شیعہ تمہارے امام ؑ کو نہیں چاہئے۔
۔
میں کچھ لمحے رک یہ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر معرفتِ امام زمانہ ؑ پر مسلسل گفتگو کرنے والے واقعی سامعین کے دلوں میں امام زمانہؑ کی محبت کا چراغ روشن کرنا چاہ رہے ہیں تو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ تو ہر شیعہ کا مقصدِ حیات ہونا چاہئے کہ اُس کے دل میں اپنے امامؑ کی محبت کا چراغ روشن ہو لیکن میرا ذہن اُس وقت الجھ جاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ سامعین کو امامؑ زمانہ کی یاد دلانے والے بہت سے مقررین جب اُنہیں احساسِ جرم میں مبتلا کر لیتے ہیں تو وہ اِس مقام پر رکتے نہیں ہیں بلکہ چند قدم آگے بڑھتے ہیں اور ایک لکیر وضع کرتے ہیں۔ پھر بتاتے ہیں اگر آپ اپنے امامِؑ وقت  سے محبت کرتے ہیں، اُنؑ کے ظہور کیلئے کوشش کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امامؑ جلد ظہور فرمائیں تو لکیر کے اِس طرف آجائیں۔ میں جب لکیر کی دوسری طرف دیکھتا ہوں تو میں خود سمیت وہاں ہر اُس شخص کو کھڑا پاتا ہوں جو اِن مقررین کے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ میرا دل مجھ سے سوال پوچھتا ہے کہ آخر یہ لکیر وضع کرنے کا اختیار کس نے انہیں دیدیا؟
۔
مجھے خود سے یہ سوال پوچھتے ہوئے مولانا صادق حسن کا سنایا ہوا ایک واقعہ ہمیشہ یاد آجاتا ہے۔ واقعہ آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئیؒ کے زمانہ طالب علمی کا ہے۔ واقعہ طویل ہے لیکن مجھے اُس واقعے میں سے فقط ایک نقطہ بیان کرنا ہے تاکہ اپنی بات واضح کر سکوں۔ سید الخوئیؒ زمانہ طالب علمی میں جس ہاسٹل میں دیگر طلاب کے ساتھ رہائش پذیر تھے، وہاں ایک شخص یا ملازم تھا جو تمام طلاب کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ صفائی ستھرائی، روزمرہ کے دیگر کام اور یہاں تک کے غسل خانے اور طہارت خانے میں پانی کے انتظام تک ہر چیز کا خیال رکھتا تھا۔ ایک روز رات کے وقت سید الخوئیؒ نے اسی ملازم کے کمرے سے ایک روشنی پھوٹتے ہوئے دیکھی تھی اور تھوڑا غور کرنے پر اُنہیں نظر آیا تھا کہ یہ ملازم کسی نورانی ہستی کے سامنے دو زانو ادب بیٹھا ہے اور بہت انہماک سے اُنؑ کی بات سن کر سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ اگلے چند روز سید الخوئیؒ نے بار بار سے شخص سے استفسار کیا تھا کہ وہ رات میں کس سے باتیں کر رہا تھا اور پھر ایک روز اِس شخص نے بتایا تھا کہ وہ ہستی کوئی اور نہیں بلکہ حضرت ولی العصر عج ہیں جو مجھ سے تمام طلاب کی خیریت پوچھ رہے تھے اور خبر گیری کر رہے تھے۔

میں نے یہ واقعہ جس امام بارگاہ میں سنا تھا، اُس امام بارگاہ میں فرشِ عزا پر پڑھے لکھے لوگ بھی بیٹھے تھے، اعلی عہدوں پر کام کرنے والے بھی اور وہ لوگ جن میں کوئی مستری ہوگا، کوئی رکشہ ٹیکسی چلاتا ہوگا اور کوئی محنت مزدوری کرتا ہوگا۔ میرے دل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ واقعہ سن کر معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ان عزاداروں میں سے کسی کے دل میں بھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ وہ رب العالمین کی آخری حجت عج اور رحمت للعالمینؐ کے آخری وارثؑ کی نظر کرم سے محروم ہے۔ کوئی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوا ہوگا اور کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ اُس کے آقا و مولاؑ تو فقط ایک طبقے کے مولاؑ ہیں۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ عالمین کے رب کی آخری حجتؑ ہو اور وہ انسانوں کے بنائے ہوئے طبقوں کو خاطر میں لائے؟ چاہے کوئی کسی بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے والا طالب علم ہو یا کسی دیہات میں کھیتی باڑی کرنے والا محنت کش کسان، مولا امام زمانہ عج اپنے چاہنے والے ہر انسان پر نظرِ کرم رکھتے ہیں۔ مولا طبقاتی نظام کا پھیلایا ہوا احساسِ محرومی مٹا کر کرہ ارض کو عدل و انصاف سے پُر کرنے تشریف لاینگے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مولاؑ کی معرفت کے نام پر کسی استحصال کا شکار انسان کے احساسِ محرومی کو مزید بڑھاوا دیا جائے؟ اُس کے حلیے کی وجہ سے اُس کی تحقیر کی جائے۔ میں دست بستہ عرض کروں تو مجھے معرفتِ امام زمانہؑ کا نام لیکر کی جانے والی یہ موٹیویشنل اسپیچز بالکل سمجھ میں نہیں آپاتیں جن میں ایک شخص منصف بن کر یہ فیصلہ کرتا نظر آئے کہ کسے امام زمانہ عج کی معرفت ہے اور کسے نہیں۔
۔
معلوم نہیں میرا مشاہدہ درست ہے یا نہیں لیکن اپنے امامِؑ وقت عجل اللہ تعالی فرجہ کی معرفت کی تلقین کرنے کیلئے جو طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے، مجھے یہ طرزِ عمل اُس مولوی کے طرزِ عمل جیسا لگتا ہے جس کا کام لوگوں کو صرف عذابِ الہی سے ڈرانا ہوتا ہے۔ جو کبھی بھول کر بھی انسان کو یہ نہیں بتاتا کہ وہ رب العالمین کتنا کریم، مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔ بالکل اِسی مولوی کی طرح معرفتِ امام زمانہؑ کی تلقین کرنے والے بعض واعظین بھی مجھے کبھی بھی یہ بتاتے نظر نہیں آتے کہ ہمارا امامِ وقتؑ اُس ہستی کا وارث ہے جو رحمت للعالمینؐ ہیں۔ خود سوچیں کہ جو رحمت للعالمینؐ کا وارث ہوگا وہ کس قدر کریم اور محبت کرنے والا ہوگا۔ میں کیوں ہمیشہ خود کو مجرم سمجھ کر اُس کریمؑ کو یاد کروں جس کا میں محتاج ہوں، نہ کہ وہ نعوذ باللہ میرا۔ اپنے امامِ وقتؑ سے غافل رہنے کا احساس دل میں بہرصورت موجود رہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں اپنے دل میں یہ احساس ہی پیدا نہ کر سکوں کہ میرا حاضر امامؑ وہ ذات اور وہ حجتِ خداؑ ہے جس کے وجود مطھر کی بدولت اس کرہ ارض اور دنیا کا وجود قائم ہے۔ جو خدا کی آخری حجتؑ اور میرا امامِ وقتؑ ہے۔
۔
یہاں ایک اور قابلِ غور پہلو ہے جس کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ہمیشہ سے دیکھتا آیا ہوں کہ ہم جیسے “رسمی شیعہ” جب جب امام سید الساجدین علیہ السلام کے مصائب کو یاد کرتے ہوئے “بیمارِِ کربلا”، “عابدِؑ بیمار” یا “ہائے میرا مظلوم و بے کس امامؑ” جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں یا امامؑ کے طوق و رسن کا تذکرہ کرتے ہیں تو ایک گروہ ایسا موجود ہے جو مصائب بیان کرنے کے اس استعاراتی انداز کو سمجھنے کے بجائے ہمیں یہ طعنہ دیتا ہے کہ بجائے امام سجادؑ کی سیرت اور جدوجہد کو سمجھنے کے یہ “رسمی شیعہ” بس اُن کی بیماری کو یاد کرتے ہیں اور طوق و رسن کو یاد کرتے ہیں اور اُنہیں بے کس کہہ کر ظاہر کرتے ہیں کہ امامؑ بے کس تھے، نعوذ باللہ کچھ نہیں کر رہے تھے۔

لیکن مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ یہی لوگ اپنے امامِ وقتؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا ہی اُصول بھلا بیٹھتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ ہستی جو خدا کی آخری حجت ہے، جو ولایت کی حامل ہے، جس کے دم سے اِس کرہ ارض کا وجود باقی ہے، جس کی بدولت نعمتوں کا تسلسل سے ملتے رہنا ممکن ہے، جسے اس کرہ ارض کو تاریخ انسانی میں پہلی بار مکمل طور پر عدل و انصاف سے پر کرنا ہے۔ وہ ہستی نعوذ باللہ ظہور کیلئے ہماری محتاج ہے اور حسرت سے ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ کب ہم زمین ہموار کریں اور حجتِ خدا کا ظہور ہو۔
۔
یہاں مجھے دوبارہ علامہ طالب جوہریؒ کا قائم کردہ ایک استدلال یاد آتا ہے جو اُنہوں نے “فلسفہِ استغفار” سمجھاتے ہوئے سورہ نصر میں ہونے والے استغفار کے تذکرے پر گفتگو کرتے ہوئے قائم کیا تھا۔ اُنہوں نے سوال پوچھا تھا کہ پروردگار اپنے محبوبؐ سے فتح مل جانے کے بعد جس استغفار کا تقاضا کر رہا ہے، آخر اس استغفار کا مفہوم ہے کیا؟ کیا یہ وہی استغفار ہےجو ہم جیسے گناہگار کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو مقامِ عصمت پر فائز رسولِ کریمؐ سے نعوذ باللہ گناہ تو کیا کسی ترک اولی کا تصور بھی ناممکن ہے تو پھر اس استغفار کا مطلب کیا ہے؟

اس کے بعد اُنہوں نے مولا علیؑ کا مشہور واقعہ بیان کیا تھا جب ایک مجلس میں کچھ لوگ مختلف حاجتیں لیکر امیر المومنینؑ کے پاس آئے تھے۔ کوئی گناہگار تھا، بخشش کا طریقہ پوچھنے آیا تھا، کسی کا لگایا ہوا باغ سوکھ گیا تھا اور وہ اِس کا علاج پوچھنے آیا تھا، کوئی بے اولاد تھا اور اولاد کیلئے دعا کروانے آیا تھا، کسی نے اپنے علاقے میں نہر کھودی تھی جو سوکھ گئی تھی اور وہ اس کا حل پوچھنے آیا تھا۔ اِن سب سائلین کو مولائے کائناتؑ نے ایک ہی جواب دیا تھا کہ جاو اور استغفار کرو۔ مجلس میں موجود احباب نے حیران ہوکر پوچھا تھا کہ یا علیؑ، آپ نے ان سب سائلین کو ایک ہی جواب کیوں دیدیا؟ جس پر مولائے کائناتؑ نے قران حکیم میں موجود اُن آیات کی تلاوت فرمائی تھی جس میں اللہ استغفار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتلا رہا ہے کہ استٖغفار کرو تاکہ گناہ بخشے جائیں، اولاد، باغ اور نہریں عطا ہوں۔ جواب سن کر احباب نے کہا تھا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ آیت ہم نے آج ہی سنی۔

اِس آیت اور واقعے کی روشنی میں علامہ طالب جوہریؒ نے یہ استدلال قائم کیا کہ استغفار فقط گناہوں کی بخشش کیلئے نہیں بلکہ نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے بھی کیا جائے۔ اب جتنا بڑا انسان ہوگا، اُتنا ہی مرتبہ اُس کے استغفار کا ہوگا۔ یہاں علامہ طالب جوہریؒ نے ایک دلیل قائم کی کہ تاریخ انسانی میں جتنی بھی قوموں پر جن جن برائیوں کی وجہ سے عذاب آئے، آج وہ تمام برائیاں مسلمانوں میں موجود ہیں۔ تو کیا وجہ ہے جو عذاب نہیں آتا؟ آیاتِ قرانی کے وسیلے سے دلیل قایم کرنے کیلئے معروف علامہ طالب جوہریؒ نے یہاں ایک اور آیہ مبارکہ پیش کی جس میں پروردگار یہ بیان کر رہا تھا کہ جب تک اُمت میں رسولِ کریمؐ (ظاہرا”) موجود ہونگے، اُس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسری صورت یہ کہ اُمت استغفار کرتی رہے، تو بھی عذاب نہیں آئے گا۔ اب کسی میں اتنی جرات ہے کہ وہ یہ دعوی کر سکے کہ اُس کے استغفار کی وجہ سے نعمتوں کا تسلسل قائم ہے اور اُسی کے استغفار کی وجہ سے عذاب نہیں آتا؟ کوئی یہ دعوی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ تو کوئی ذات موجود ہے جو اُس محمد مصطفیؐ کی وارث ہے کہ جس کے استغفار کی بدولت نعمتوں کا تسلسل قائم و دائم ہے اور جس کے استغفار کی بدولت عذاب نہیں آتا۔
۔
علامہ طالب جوہریؒ کے بیان کردہ اس فلسفہِ استغفار نے مجھے معرفتِ امام زمانہ عج کا مفہوم سمجھنے میں بہت مدد کی۔ مجھے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ میں گناہ گار اور غافل انسان اس حقیقت سے بہرطور آگاہ رہوں کہ میں اپنے امامِ وقتؑ کو یاد نہیں کرتا لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دل میں یہ عقیدہ بھی راسخ رہے کہ میرا حاضر امامؑ میرا ولی، میرا مولاؑ اور میرا آقا ہے۔ میرا مولا عج مجھ سے اور اپنے چاہنے والوں سے کبھی غافل نہیں رہتا۔
میرے دل نے مجھے آواز دی کہ تمہارے آقا و مولا عج وہ ہستی ہیں جن کی زیارت تم مجالس کے اختتام پر اور نمازوں کے بعد بچپن سے سنتے آئے۔ کبھی اس زیارت کے جملوں کو دل میں دہرا کر تو دیکھو کہ وہ امام صاحب العصر والزمان ہیں، وہ خلیفہ الرحمن ہیں، وہ امام انس والجان ہیں، وہ شریک القران ہیں، وہ مظھر الایمان ہیں، قامع الکفر والطغیان ہیں اور دافع الظلم والعدوان ہیں۔

وہ رب العالمین کی آخری حجتؑ ہیں، رحمت للعالمینؐ کے آخری وارث ہیں۔ میں اپنے مولا عج کا محتاج ہوں، نعوذ باللہ میرے مولا عج میرے یا ہمارے محتاج نہیں۔ میرے مولاؑ کے وجودِ مطھر کی بدولت نعمتوں کا تسلسل قائم ہے، میرے آقاؑ کا وجودِ مطھر کرہ ارض کی بقا کا ضامن ہے اور آپؑ کے استغفار کی وجہ سے عذاب رکا ہوا ہے۔ آپؑ کے سوا کون ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ اُس کے استغفار نے عذاب روک رکھا ہے اور نعمتوں کا تسلسل یقینی بنا رکھا ہے۔ کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا۔
۔
تحریر انتہائی طویل ہوچکی لیکن میرے ذہن میں جو سوال تھے اور جو میں کہنا چاہ رہا تھا، وہ سب بیان کرنا بھی ضروری تھا۔ پندرہ شعبان کی مبارک ساعتیں قریب تر ہو رہی ہیں اور اپنے دل کا حال بیان کرنے کیلئے ان ساعتوں سے بہتر وقت اور کیا ہوگا؟ تحریر کا اختتام علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کے ہی مشہور کلام “استغاثہ”کے ان اشعار پر جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ امام زمانہ  صلوات اللہ علیہ  کا وجود ہمارے لیے تحفظ، کرامت، محبت اور سراپا رحمت کے احساس کا نام ہے۔ مولا ؑ سے ہمارا تعلق فقط احساس جرم و ندامت کا نہیں ہونا چاہئے۔

تیری شاہی امر تیرا فرماں اٹل
تیری مٹھی میں تجدید نظم علل
تو تمنائے موعود خیر الملل
کعبہ آدمیت کے زمزم ابل
اے ضمیر مشیت کے ارماں نکل

العجل العجل العجل العجل
۔
#نوردرویش