سیاسی نظریات کیلئے مقامِ اہل بیتؑ میں تقصیر کی روش
پاکستان میں انقلابی فکر سے متاثرہ تمام مومنین ایسا رویہ نہیں رکھتے لیکن اِن میں بہرحال ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے نظریات و افکار کو تقویت پہنچانے کیلئے،اُنہیں دوسروں کیلئے پرکشش بنانے کیلئے اور اپنی پسندیدہ شخصیات کا قدر بڑھانے کیلئے انتہائی آسانی سے (نعوذ باللہ) اہل بیت علیھم السلام کو اُن کے بلند ترین مرتبے سے نیچے لے آتے ہیں اور کبھی اپنے سیاسی نظریات کو برحق ثابت کرنے کیلئے اُنہیں واقعہ کربلا کے کرداروں سے تشبیہ دیتے نظر آتے ہیں۔ افسوس یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک ایسا کرنا نہ صرف بالکل درست ہوتا ہے بلکہ یہ ایسا کرتے ہوئے یہ باقاعدہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ جیسے یہ باور کروا رہے ہوں کہ اہل بیتؑ کے اصل پیروکار دراصل یہی لوگ ہیں۔
خیمہ حسینی، وقت کا مسلم ابنِ عقیل، وقت کے حُر، آج کی کربلا، وقت کا حسین ؑ، ہم سب عباس ؑہیں (نعوذ باللہ) اور اس جیسے کئی جملے ہیں جو یہ حضرات اکثر دہراتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ فقط دہراتے نہیں ہے بلکہ اِن کی تائید میں دنیا جہان کے دلائل بھی دیتے ہیں۔
۔
اِن کی مخالفت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ان کے رہبر اعلیٰ کی ہاتھ کی معذوری کا مذاق اُڑانے یا اُس معذوری کی وجہ سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کرتا نظر آتا ہے، جو سراسر قابل مذمت اور غیر اخلاقی رویہ ہے جس کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہئے بلکہ اس سے پرہیز کرنے کی تلقین بھی کرنی چاہئیے۔ لیکن اِس سے زیادہ افسوسناک رویہ یہ ہے کہ جواب میں اپنے رہبر اعلیٰ سے عقیدت رکھنے والے بغیر کسی ہچکچاہٹ، ڈر یا خوف کے فوراً مولا عباس علیہ السلام کے کٹے ہوئے متبرک بازووں کا ذکر چھیڑ کر گویا یہ ثابت کرنا شروع کردیں کہ اگر تمہارے نزدیک ہمارے رہبر اعلیٰ کے ہاتھ کی معذوری عیب ہے تو نعوذ باللہ۔۔۔۔۔
میں ایسے موازنے کیلئے لکھے جانے والے جملے دہرانا بھی بارگاہ ابوالفضل العباس علیہ السلام میں جسارت سمجھتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ کیا ان لوگوں کے نزدیک مولا عباس علیہ السلام کا مقام یہی ہے کہ اِن لوگوں کو ایسے موازنے کرتے ہوئے لمحہ بھر کیلئے بھی شرم نہیں آئے اور اِن کے ہاتھ نہ کانپیں؟
کہاں کربلا میں قلم ہونے والے وہ کفِ عباس علیہ السلام جن کے عوض بنص، فرمانِ امام سید سجاد علیہ السلام، مولا عباس علیہ السلام کو جنابِ جعفر طیار علیہ السلام کی طرح دو پر عطا کیے گئے ہیں۔ جب مولا مولا عباس علیہ السلام پرواز کرتے ہیں تو فرشتے رشک سے دیکھتے ہیں۔ کہاں مقامِ عصمتِ صغریٰ پر فائز مولا ابوالفضل العباس علیہ السلام اور کہاں یہ دنیاوی شخصیات۔ کہاں ذبحِ عظیم کے الوہی معرکے میں قلم ہونے والے غازی عباس علیہ السلام کے ملکوتی بازو اور کہاں دنیاوی حادثات و علاقائی جنگوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معذوری۔ کوئی خود کو مولا عباس علیہ السلام کا چاہنے والا بھی کہے اور پھر چاہے مثال کیلئے ہی سہی، ایسا موازنہ کرنے کی جسارت بھی کرے؟ یہی وہ روش ہے جو ایک شخص سے یہ توفیق ہی سلب کروا دیتی ہے کہ اُسے ادراک ہی نہیں ہوپاتا کہ جو وہ کہہ رہا ہے یہ جسارت ہے، یہ مقامِ عبرت ہے، مقام فخر نہیں۔
دراصل اس روش کی بنیاد وہی ہے جس کے ذکر میں نے تحریر نے آغاز میں کیا۔ یعنی اپنی پسندیدہ شخصیات کا قد بڑھانے کیلئے اہل بیت علیھم السلام کے بلند ترین مراتب کو فراموش کر دینا اور اپنے افکار و نظریات کو تقویت پہنچانے کیلئے کربلا کے الوہی واقعے میں اپنے نظریات کی ملاوٹ کردینا۔ اب اِس روش کو مقامِ اہل بیتؑ میں تقصیر کرنا کہا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔