جاوید غامدی کی فکری بددیانتی از نور درویش
جاوید احمد غامدی کی ایک ویڈیو کل سے سوشل میڈیا پر گردش میں ہے ۔ جاوید غامدی کے مطابق سیاسی معاملے میں اُن کے نزدیک قرآنی آیات ، احادیث و روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لہٰذا موصوف کے نزدیک اگر بات سیاست کی جائے تو حاکمِ شام کے سامنے نعوذ باللہ اُس شخصیت کی کوئی اہمیت نہیں جسے بابِ مدینہ العلم کہا گیا۔ یعنی ایک شخصیت کو باب مدینہ العلم و حکمت بھی کہا جائے اور پھر یہ بھی کہا جائے کہ اس علم میں علمِ سیاست شامل نہیں۔باقی تمام علم اور فضیلتیں شامل ہیں۔ غامدی کے استدلال میں سب سے بڑا منطقی اور عقلی سقم یہ بھی ہے کہ آپ ایک شخص کی سیاست کی بنیاد پر اس کے بلند مقام کا تعین کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے آپ اس حقیقت کو ہی نظر انداز کر دیں کہ اُس کی سیاست کا اصول کیا تھا؟ کیا اُس کی سیاست کا محور عدل تھا یا فقط حصول اقتدار، سچ اور جھوٹ کو اُس کی سیاست میں کیا مقام حاصل تھا، پراپگنڈہ کو کیسا سمجھتا تھا اور سب سے اہم یہ کہ اُس کی سیاست کا نتیجہ مستقبل میں کیا نکلا؟
کیا آپ کو یہ استدلال منطقی اور عقلی محسوس ہوگا اگر میں کہوں کہ میکاولی کا سیاسی قد نیلسن منڈیلا سے بڑا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ میکاولی کی سیاست میں سب سے پہلے اپنا مفاد تھا چاہے اس کیلئے جھوٹا پراپگنڈہ کرنا پڑے، عوام میں تقسیم پھیلا کر اپنا مفاد حاصل کرنا پڑے یا تشدد جھوٹ اور انتشار کا سہارا لینا پڑے۔ غامدی کے نزدیک میکاولی ایک بڑا سیاسی فگر سمجھا جائے گا چاہے اس کی سیاست میں عدل کا وجود ہو یا نہ ہو۔
حاکمِ شام کی سیاست کی بات کی جائے تو کون انکار کرے گا کہ اس سیاست نے اسلام میں ملوکیت کی بنیاد ڈالی۔ اسی سیاست کا نتیجہ تھا کہ مسند اقتدار پر یزید پلید جیسا شخص براجمان ہوا۔ اتفاق سے غامدی اور ان کے پیروکار واقعہ کربلا کو بھی سیاسی معاملہ ہی کہتے ہیں اور مزید اتفاق یہ کہ یہاں وہ یزید کو اس واقعے سے بری الذمہ قرار دیتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک ثابت شدہ نا صبی بیانیہ ہے۔ یعنی یہ کیسا نظریہ ہے جس میں آپ کسی کے سیاسی قد کا تعین کریں اور نہ عدل کو مدنظر رکھیں نہ ظلم کو؟ ہزار ہا کتابوں کے مطالعے کا دعویدار اور خود کو ماڈریٹ اور امن پسند اسلام کا داعی کہنے والا ایک شخص کس طرح ایک ایسی ڈاکٹرائن کی سیاست کے فضائل سنا سکتا ہے جس نے اسلام میں ملوکیت کی بنیاد رکھی ؟ میرا ذہن اس استدلال کو تسلیم نہیں کرتا کہ میں کسی سیاسی نظریہ کی حمایت کروں جبکہ اس نظریہ میں عدل کی اہمیت ناپید ہو اور جھوٹ و پراپگنڈہ کو سیاسی بصیرت سمجھا جاتا ہو۔
۔
سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس سیاسی فکر کو جاوید غامدی نے اس قدر گلوریفائی کر کے پیش کیا، دورِ حاضر میں خود کو مسلمان کہلانے والا کون سا طبقہ اِس سیاسی فکر کا صفِ اول کا حمایتی ہے ؟ آپ شیعوں کو تو ایک طرف کر دیجئے، خود اہل سنت کی اکثریت اِس معاملے میں جاوید غامدی کی رائے سے اختلاف کرے گی اور کوئی اتفاق کرے گا تو فقط اور فقط ناصبیت یا نیم ناصبیت زدہ افکار کا حامل طبقہ۔ کسی کا خمیر سلفیت سے نکلا ہوگا تو کسی کا دیوبندیت سے۔ گویا جو جتنا اس ملوکیت زدہ اسلام کا جتنا بڑا حمایتی ہوگا، اتنا زیادہ اکھڑ مزاج ۔ آپ خود بتایئے جس سیاسی نظریے کو فی زمانہ ایسے حمایتی میسر ہوں، اُس کی اساس کیا ہوگی؟
چونکہ جاوید غامدی نے یہ نرالا استدلال پیش کیا ہے کہ سیاسی معاملات میں کسی قرانی آیت، حدیث یا روایت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی لہذا میں بھی کوشش کر رہا ہوں کہ جو بھی لکھوں اُس میں حتی الامکان کوشش کروں کہ فقط عقلی اور منطقی اور ظاہری حقائق پر مبنی باتیں لکھوں، کسی آیت یا حدیث کا حوالہ نہ دوں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ غامدی جس سیاست کو گلوریفائی کر رہا ہے، اُس کا اسلامی تاریخ اور پھر ماضی بعید و قریب میں کیا کردار رہا، اُس کے کیا اثرات رہے ۔ آپ تھوڑی دیر کیلئے مذہبی پہلو کو ایک طرف رکھ کر غور کریں کہ غیر مسلم دانشوروں نے اگر اسلامی تاریخ کے مختلف کرداروں بارے میں کچھ لکھا تو وہ کردار کون سےتھے؟ کیا مسیحی مصنف جارج جرداق نے امام علیؑ کی شخصیت پر جو کتاب لکھی، کیا ویسی کوئی کتاب اُن کرداروں پر بھی لکھی گئی جن کی سیاست کی فضیلت غامدی نے بیان کی؟ نظریہ اور شخصیت تو وہی طاقتور ہوتا ہے جسے ہر زمانے میں دوام ملے، جس کے عظمت کے اپنے ہی نہیں غیر بھی معترف ہوں۔ جارج جرداق نے غامدی کی خواہش کے مطابق قرانی آیات یا احادیث کا سہارا نہیں لیا بلکہ امام علیؑ کے ظاہری اقتدار کے سب سے اہم پہلو کو موضوع بنایا یعنی عدل۔ آگے بڑھیں تو کربلا کی مثال ہر زندہ ضمیر انسان کیلئے سب سے روشن مثال ہے۔ غامدی اور اُس کے پیروکار جس واقعہ کا سرسری تذکرہ کرکے اسے ایک حادثہ، مِس ہینڈلڈ سانحہ، سیاسی معاملہ یا اقتدار کی جنگ کہہ کر یزید ملعون کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں، اسی واقعے نے دنیا کو کس قدر شدت سے اپیل کیا ہے۔ آپ اس واقعے کو کسی شیعہ کی نظر سے مت دیکھیں نہ ہی جذبات اور عقیدت کے پہلووں کو مدنظر رکھیں۔ آپ بس یہ دیکھیں کہ ایک غیر جانبدار انسان، ایک مصنف، ایک غیر مسلم نے واقعہ کربلا سے کیا اثر لیا۔ اُسے کس نظریے نے متاثر کیا۔ وہ نظریہ امام حسینؑ کا نظریہ ہے۔ مجھے ساوتھ افریقہ کے مسیحی مصنف پروفیسر کلوہیسی کا نام یاد آگیا جنہوں نے امام حسینؑ، سیدہ فاطمہ زہراؑ اور سیدہ زینبؑ کی عظیم الشان شخصیات پر کتابیں لکھیں۔ کیا ایک غیر جاندار انسان کیلئے اس حقیقیت کو تسلیم کرنا مشکل ہوگا کہ کربلا اور امام حسینؑ کا نظریہ ایک طاقتور ترین نظریہ ہے جس نے نوعِ انسانی کو کمال شدت سے اپیل کیا ۔ بقول غامدی کے، اُسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے کسی قرانی آیت یا حدیث کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ غامدی کی خواہش کے مطابق خود یہ حقیقت درک کرے گا کہ امام حسینؑ کا کردار ایک آفاقی کردار ہے۔ غامدی کو بھی سوچنا چاہئے کہ علیؑ کا وارث تو ایک درخشاں ستارے کی طرح نوعِ انسانی کو صدی در صدی متاثر کرتا آرہا ہے اور جس کی سیاست کو غامدی نے گلوریفائی کیا، اُس کا وارث ایک گالی بن چکا۔ فرمانِ امام علیؑ کا مفہوم ہے کہ آنکھ والے کیلئے اُجالا ہوچکا۔
غامدی اور اُس کے پیروکار کسی غیر جانبدار، کسی غیر مسلم مصنف لکھی کوئی ایک کتاب تو دور کوئی ایک مضمون ہی دکھلا دیں جس میں حاکمِ شام کی سیاست کے وارث یزید لعین کی حکومت اور اُس کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہو۔ کیا یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل نہیں ہوگا کہ جس سیاست کو غامدی گلوریفائی کر رہا ہے کیا اُس کی یہی حیثیت ہے؟ کھینچ تان کر کر اِس فکر کے حامل گروہ کے پاس ایک ہی پہلو بچتا ہے جسے یہ اسلام کی فتوحات سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی رقبوں کے فضائل۔وہ رقبے جو آج پچاس سے زیادہ مسلم ممالک پر محیط ہیں لیکن ان کی اہمیت کیا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔
۔
اگر آپ نے غامدی کی گفتگو پر غور کیا ہو تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اُس نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلے آیت قران اور احادیث سے ثابت شدہ فضیلت کو نظر انداز کیا گویا اہم ترین پہلو کو پہلے ہی دلیل کی فہرست سے خارج کر دو تاکہ سننے والوں کو یہ باور ہو سکے کہ ہم عقلیت پسندی، حقائق اور گراونڈ رئیلیٹی کو اہمیت دیتے ہیں، قران و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت الگ ڈومین ہے۔ دراصل یہ اس گروہ کا طریقہ واردات ہے تاکہ لوگوں پر یہ تاثر پڑ سکے کہ یہ لوگ حقائق کو اہمیت دیتے ہیں۔ البتہ آپ اسی گروہ کے سامنے فدک جیسے معاملے کا ذکر کریں تو یہاں یہ حقائق کے بجائے اُس حدیث کا دفاع کرتے نظر آئیں گے جسے عرفِ عام میں حدیثِ غریب کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں، غامدی اور اُس کے جملہ پیروکار اہل بیتؑ کی شان میں موجود آیات کا باآسانی انکار کرنے میں ذرا نہیں جھجھکتے، اس معاملے میں ان کا رویہ اکثر منکرِ حدیث جیسا بھی نظر آتا ہے البتہ جب معاملہ صحابہ کا آئے تو ان کا معیار بدل جاتا ہے۔ ایک بار سوشل میڈیا پر جاوید غامدی کا ایک پیروکار کہنے لگا کہ مجھے شیعوں میں علامہ طالب جوہریؒ کافی پسند تھے کیوں کہ قران کی بہت اچھی تفسیر بیان کرتے تھے لیکن پھر میں نے اُنہیں سننا چھوڑ دیا کیوں کہ ہمیشہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آخر میں اُسے فضیلتِ اہل بیتؑ سے جوڑ دیتے تھے۔ آپ ملاحظہ کیجئے اس گروہ کی پسند ناپسند کا معیار۔ انہیں وہ تفسیر پسند نہیں جس میں فضیلیت اہل بیتؑ بیان ہو۔
۔
تحریر کا اختتام امام علیؑ کے خطبے کے اس اقتباس پر کرتا ہوں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جو باب مدینہ العلم ہو اُس کا سیاست کے علم میں بھی کوئی ثانی نہیں ہوگا، بس فرق یہ ہے کہ ایک طرف سیاست تابع ہے عدل کی اور دوسری طرف سیاست تابع ہے مفادات کے۔ بس قابلِ غور بات یہ ہے کہ تاریخ اور زمانے نے کسے کس طرح یاد رکھا۔ کیا زمانے نے حاکمِ شام کی سیاست کو ویسے یاد رکھا جیسے جاوید غامدی بتانا چاہ رہا تھا؟
“خُدا کی قسم حاکمِ شام مُجھ سے زیادہ چلتا پُرزہ اور ہوشیار نہیں مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چُوکتا نہیں اور بد کرداری سے باز نہیں آتا-اگر مُجھے عیّاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا لیکن ہر غداری گُناہ اور ہر گُناہ حکمِ الٰہی کی نافرمانی ہے۔”
مولا علی علیہ السلام (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۸)