معاویہ ابنِ یزید الخیر از نور درویش
پچیس جمادی الاول سنہ 64 ھ معاویہ ابن یزید رض کا یوم وفات ہے۔ معاویہ ابن یزید وہ شخص ہے جس نے اپنے باپ یزید لعین کی موت کے بعد اُس کی وصیت کے مطابق اقتدار سنبھالا اور پھر ایک تاریخ ساز خطبہ دینے کے بعد اِس اقتدار کو یہ کہہ کر ٹھوکر مار دی کہ میرے باپ نے بہت بڑا ظلم کیا۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے اپنے باپ اور دادا، دونوں کے اقتدار کو باطل قرار دیا۔
صدیوں سے لیکر آج تک، بنو امیہ کی آمروں کی قصیدہ گوئی اور ان کے ہر گناہ اور ظلم کی تاویلیں گھڑنے والے ملوکیت پسند مسلمانوں نے اگر کبھی معاویہ ابن یزید کے اس خطبے کو ہی کھلے دل سے پڑھ لیا ہوتا تو یہ کم از کم اتنا ثابت کرنے کیلئے تو کافی تھا کہ حق وہیں تھا جس کی گواہی یزید لع ین جیسے شقی اور ظالم کے اپنے بیٹے نے گریہ کرتے ہوئے دی اور یہ اعلان کر کے دی کی خطاکار اور اہل باطل کون تھے اور مظلوم اور حق کی اٹل و محکم نشانیاں کون تھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ باتیں شیعہ اپنی کتب سے بیان کرتے ہوں بلکہ یہ سب تاریخ اسلام کی مستند کتب میں درج ہے۔ بڑے بڑے تاریخ دانوں نے معاویہ ابن یزید کو نیک و صالح انسان قرار دیا۔ یہاں تک کہ ابنِ تیمیہ نے بھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر آپ کو شاید ہی کوئی تاریخ کے اس اہم کردار کا تذکرہ کرتا نظر آتا ہوگا۔ بالکل اُسی طرح جیسے جناب محمد ابنِ ابی بکر کی عظیم شخصیت کا تذکرہ بھول کر بھی نہیں کیا جاتا کیوں کہ اُن کا ذکر ہوگا تو اُن کے قاتلوں کا ذکر بھی ہوگا، اُن کی امام علیؑ سے بے مثال وفاداری اور امام علیؑ کی اُن سے محبت کا ذکر بھی ہوگا ۔
۔
معاویہ ابن یزید ایک صالح انسان تھا اور اپنے خاندان بالخصوص باپ کے آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کی وجہ سے اس قدر دلگرفتہ رہتا تھا کہ اُس نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اقتدار کو بنو امیہ سے واپس اس کے حقدار یعنی امام زین العابدین علیہ السلام کو لوٹا دے گا۔ البتہ اس کے اس ارادے کی خبر بنو امیہ کے بعض سرکردہ کرداروں تک پہنچ گئی جنہوں نے معاویہ ابن یزید کو زہر دیکر شہید کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور بالآخر اس میں کامیاب رہے۔ یہی کردار معاویہ ابن یزید کی شہادت کے بعد مسندِ اقتدار تک پہنچے۔
۔
معاویہ ابن یزید رض کا کردار واقعہ کربلا کے بعد شروع ہونے والی تاریخ اسلام کا بہت اہم کردار ہے کیوں کہ یہ وہ کردار ہے جو یزیدیت یعنی بنو امیہ کے کیمپ سے اٹھا اور گریہ کرتے ہوئے یہ اعلان کر گیا کہ میرے بزرگوں نے بہت ظلم کیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی بتلا گیا کہ اس کے بزرگوں کی حکومت ناحق تھی۔
رقبوں کے فضائل سنا سنا کر بنو امیہ کی قصیدہ گوئی کرنے والے ملوکیت پسند مسلمانوں کو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ بنو امیہ اور بنو عباس کی جبر و ظلم سے لتھڑی طویل آمریت و حکمرانی ایک طرف اور معاویہ ابن یزید کی چالیس دن کی وہ مختصر حکمرانی ایک طرف جس میں اس نے یہ اعلان کر دیا کہ خطاکار کون تھا، باطل کون تھا اور حق اور حقدار کون۔ معاویہ ابن یزید رض نے رقبے تو کوئی فتح نہ کیے لیکن اپنے بڑوں کے جرائم کا اعتراف کرکے بہت سے قلوب یقینا فتح کر گیا۔ خدا معاویہ ابن یزید پر رحمتیں نازل فرمائے جنہیں معاویہ ابن یزید الخیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔