علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ نے شہادت بی بی سکینہ سلام اللہ علیھا کی مجلس میں مصائب بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعہ کربلا کے بعد جب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا واپس مدینہ آئیں تو مدینہ کی کچھ بوڑھی عورتوں نے یہ سوال پوچھا کہ بی بی آپ نے بہت مصیبتیں دیکھیں لیکن ان سب میں سب سے بڑی مصیبت کیا تھی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے روتے ہوئے جواب دیا کہ ہم آل محمد علیھم السّلام کیلئے سب سے بڑی مصیبت شام کا قید خانے تھی۔ کیوں کہ جونہی سورج ڈوبتا تھا تو وہ بچی جو باپ کے سینے پر سونے کی عادی تھی وہ رونے لگتی تھی اور روتے روتے پکارتی تھی کہ بابا ع مجھے نیند آرہی ہے بابا۔ مجھے اپنے سینے پر سلا لو بابا۔
۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنی سب سے بڑی مصیبت کا ذکر روتے ہوئے فرمایا، مجھے یقین ہے سوال پوچھنے والی بوڑھی عورت سمیت وہاں موجود دیگر عورتوں نے بھی آل محمد علیھم السّلام کی یہ مصیبت سن کر بہت گریہ کیا ہوگا۔ میں یہ سوچ کر بھی کانپ اٹھتا ہوں کہ وہاں موجود کوئی عورت بی بی زینب سلام اللہ علیھا سے یہ کہنے کی جسارت کرتی کہ بی بی آپ نے اپنی سب سے بڑی مصیبت بیان کی، ہم نے بہت گریہ کیا، مالک آپ آل محمد علیھم السلام کے غم میں بہنے والے ہمارے ان آنسووں کو قبول فرمائے اور ہمیں اجر و ثواب اور جنت عطا فرمائے۔ اب آپ ہمیں کربلا کا اصل مقصد بھی سمجھا دیجئے کیوں کہ صرف رونا اور گریہ و ماتم تو کافی نہیں۔ ایسا کہنا تو کجا سوچنا بھی محال محسوس ہوتا ہے۔
اندازہ کیجئے کہ ثانی زہرا سلام اللہ علیھا ہمیں بتلا رہی ہیں کہ وہ کربلا کو کس طرح یاد رکھ رہی ہیں اور دوسروں کو یادرکھوانا چاہ رہی ہیں۔ وہ بتلا رہی ہیں کہ آنے والے زمانے لوگ یہ غور کریں کہ ان کی والدہ سیدہ سلام اللہ علیھا نے اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے لخت جگر کی عالم مظلومیت میں شہادت کا احوال سن کر سب سے پہلا سوال یہی پوچھا تھا کہ میرے لخت جگر پر روئے گا کون؟ یعنی کس قدر اہمیت ہوگی اس گریہ کی؟
۔
مصائب کے یہ واقعات فقط واقعات نہیں بلکہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کا وہ پیغام ہے جو وہ آنے والے زمانوں کیلئے بار بار دہراتی رہیں۔ کبھی رہائی کے بعد سب سے پہلے شام میں ایک گھر کے انتظام کا حکم دیتے ہوئے یہ کہہ کر کہ ہم اپنے پیاروں کو رو نہ سکے، ہمیں ایک مکان کا بندوبست کر کے دیا جائے تاکہ میں اپنے بھائی حسین علیہ السلام کو جی بھر کر رو سکوں اور پرسہ لے سکوں۔ اور کبھی مدینہ واپسی کے بعد مدینہ کی عورتوں کو اپنی سب سے بڑی مصیبت بتاتے ہوئے۔
کسے یاد نہ ہوگا کہ دربار یزید لع میں تاریخ ساز خطبہ دیتے ہوئے سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے یہ جملہ کہا تھا کہ تو قیامت تک ہمارا ذکر ختم نہ کر پائے گا۔ تاریخ شاہد ہے یہ ذکر گریہ و ماتم کی صداؤں کے ساتھ صدی در صدی آگے بڑھتا آیا ہے۔ لہذا یہ گریہ فقط “رونا دھونا” نہیں ہے بلکہ آل محمد علیھم السّلام کا کیا ہوا انتظام ہے۔
ہمارے ہاں اصلاح و نصیحت کا ایک انداز یہ پروان چڑھایا گیا کہ ہر عمل خیر کی ترغیب دینے کیلئے اسے فورا عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ پھر وہ چاہے عبادات ہوں یا کار خیر، یہ سلسلہ زور ہی پکڑتا گیا یہاں تک کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ نعوذ باللہ سب سے غیر اہم یہ شہہ مظلوم کا غم ہی ہے جسے جب چاہے اور جو چاہے کسی اچھے عمل کی ترغیب کیلئے دانستہ یا غیر دانستہ غیر اہم، رسم یا بس ثواب و جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دے ڈالے۔ یہ روش اس قدر تواتر کے ساتھ منبر سے دہرائی جاتی رہی کہ آج خود کو شیعہ کہنے والوں کی بڑی تعداد ہی دانستہ یا غیر دانستہ ایسے نظریات کا پرچار اِس یقین کےساتھ کرتی نظر آتی ہے کہ گویا جو وہ بتلا رہے ہیں یہی کربلا کا اصل پیغام اور مقصد ہے۔ لوگ غم امام حسینؑ میں گریہ کرنے جیسی عظیم سعادت کو “فقط رونا دھونا کافی نہیں” جیسے تکلیف دہ جملوں سے تعبیر کر کے یہ ثابت کرتے نظر آتے ہیں کہ اصل ہدف کچھ اور ہے۔ جب اُن سے اِس اصل ہدف کی تفصیل جاننے کی کوشش کی جائے تو کردار سازی، زمین سازی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، عبادات، وقت کے حسینؑ کی معرفت، فکر و عمل، کربلا شناسی اور ان جیسی مختلف اصطلاحات کی گردان کے بعد آپ کو آخر میں مخصوص سیاسی نظام کے کھونٹے کے پاس لے آیا جاتا ہے کہ آو اِس کھونٹے سے بندھ جاو، یہی کربلا شناسی ہے اور یہی اصل ہدف۔ کسی کو میری رائے سے اتفاق نہ ہو تو اِس وقت فکر و عمل، کردار سازی اور انتظار امام زمانہؑ کا نام لیکر مجالسِ حسینؑ میں مخصوص طرز کے سیاسی خطاب کرنے والے جملہ معروف خطباء کے نظریات پر غور کر لے، ان سب کا ہدف ایک ہی ہوگا، مخصوص سیاسی نظام کی ترویج۔ ان میں بعض ایسے ہی جو کبھی کبھی سامعین کے فضائل اہل بیتؑ سننے کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خطاب میں حسب ضرورت کچھ فضائل بیان کر دیتے ہیں اور پھر وہی بیان کرتے ہیں جو اِن کا اصل ہدف ہوتا ہے۔
۔
چند دن قبل میری نظر سے ایک معروف واعظ کی ویڈیو گزری۔ وہ روضہ امام حسین علیہ السلام کے منبر رئیسی پر تشریف فرما تھے اور انتہائی درد بھرے لہجے میں یہ بیان کر رہے تھے کہ آپ نے کربلا کی زیارت تو کر لی، روضے کے در و دیوار اور ضریح سے لپٹ کر آنسو بہا کر ثواب و جنت بھی حاصل کر لیا لیکن کیا یہی کربلا آنے کا مقصد ہے۔ آپ کے وقت کا امامؑ آپ کا منتظر ہے، تین سو تیرہ مکمل نہیں ہو پارہے۔ وقت کے حسینؑ کو پہچانیں۔ اور اسی طرح کے مزید موازنے کرکے گویا وہ حرم امام حسین علیہ السلام کے اندر منبر رئیسی پر بیٹھ کر انتظار و ظہور امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی اہمیت سمجھانے کیلئے ایک زائر کی کل زندگی کی حسرت کی تکمیل کو فقط ثواب و جنت کے حصول کر ذریعہ قرار دے رہے تھے۔ کون زائر ہے جو کربلا ثواب یا جنت کی لالچ میں جاتا ہے؟ وہ صرف اور صرف امام حسین علیہ السلام اور مولا عباس علیہ السلام کی ضریح سے لپٹ کر جی بھر کر رونے کیلئے کربلا جاتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس یہ دیکھ کر ہورہا تھا واعظ یہ باتیں حرم امام حسین علیہ السلام کے اندر بیٹھ کر کر رہے تھے۔ کیا ایک زائر کو احساس جرم میں مبتلا کرنے کیلئے یہ مقام مناسب تھا جہاں وہ صرف اور صرف گریہ کرنا چاہتا یے؟ وہ گریہ جو سنت ائمہ علیھم السّلام ہے۔ کی وجہ ہے کہ یہ واعظ حرم امام حسین علیہ السلام میں موجود ہیں، عزاداروں کو امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کو یاد کرنے کیلئے احساس جرم میں مبتلا کر رہے ہیں لیکن یہ عزاداروں کو امام زمانہ صلوات اللہ علیہ کی لسان مبارک سے اپنے جد مولا حسین علیہ السلام کو یاد کرتے ہوئے جاری ہونی والی زیارت ناحیہ کے دل چیر دینے والے جملے یاد نہیں دلا رہے۔میرے ذہن میں معصومینؑ کے وہ تمام فرامین آتے رہے جو زیارتِ کربلا کی اہمیت و تاکید کے بارے میں میں سنتا آیا تھا۔ مجھے ان معروف واعظ کے افکار معصومینؑ کے فرامین سے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوئے۔
میں ہمیشہ کی طرح یہی سوچتا رہا کہ آخر ہر عمل خیر کی ترغیب کیلئے اسے غم شہہ مظلوم علیہ السلام کے مقابل ہی کیوں کھڑا کیا جاتا ہے؟ کیا بحیثیت ایک شیعہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ گریہ و عزاداری دراصل فقط ایک بیٹی کے اپنے باپ سے سوال کا جواب نہیں بلکہ منصب عصمت و ہدایت پر فائز ایک ہادیہ سیدہ سلام اللہ علیھا کے کائنات کے سب سے بڑے ہادی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھے گئے سوال کا جواب ہے۔ یہ لسان عصمت و طہارت سے پوچھے گئے سوال اور دئے گئے جواب کا اثر ہے۔
۔
معروف واعظ کی بات سن کر مجھے یہ خیال بھی آیا کہ کیا ایسی باتیں نادانستہ کفران نعمت تو تصور نہیں ہونگی چونکہ بفضل مولا حسین علیہ السلام آج ایک زائر کیلئے کربلا کی زیارت کو جانا ویسا دشوار نہیں جیسے آج سے بیس پچیس سال پہلے تھا۔ جب ایک زائر کس قدر مشکلات جھیل کر کربلا پہنچتا تھا اور سخت سرکاری پہرے اور پابندی کا سامنا کرکے ان در و دیوار کو دیکھنے کی سعادت حاصل کرتا تھا جنہیں مس کر لینا اس کا مقصد حیات تھا۔ نہ اس وقت مشی کی اجازت تھی اور نا قبیلہ بنی اسد و طوریج کو اپنی صدیوں پرانی عزاداری کرنے کی۔ نہ کوئی کھل کر رو سکتا تھا نہ ماتم کر سکتا تھا۔ جن لوگوں نے اس سخت دور میں کربلا کی زیارت کی، کاش کوئی انہیں آج کے معروف واعظ کی نصیحتیں سنا سکے۔ مجھے یقین ہے کہ روتے ہوئے یہی کہے گا کہ خدارا اس نعمت کی قدر کرو، تمہیں کیا معلوم ہم نے کن کٹھن حالات میں اس نعمت کو پایا، تمہیں کیا معلوم کہ یہ وہ نعمت ہے جس کی حسرت ہمارے گیارہویں امام ؑکو ہمیشہ رہی۔ تمہیں آج یہ عظیم نعمت مولا حسین علیہ السلام نے قدرے آسانی سے عطا کر دی ہے تو کفران نعمت مت کرو۔
۔
ایک زمانہ تھا جب غم حسینؑ میں رونے والے شیعوں پر غیر تنقید کیا کرتے تھے کہ اِس رونے دھونے کا کیا فائدہ؟ طرح طرح کے اعتراضات کیے جاتے تھے کہ آخر اِس رونے کا مقصد کیا ہے؟ تضحیک آمیز انداز میں سوال پوچھے جاتے تھے۔ آج خود کو شیعہ کہنے والے ایسے لوگ نطر آتے ہیں جو غیروں کی طرح غم حسینؑ میں رونے کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن انہیں ایک عزادار کا “بلامشروط” غم حسینؑ میں رونا کافی نہیں لگتا، وہ اسے فقط رونا دھونا قراردیکر اپنی دانست میں بہت فکر انگیز سوال اُٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا امام حسینؑ نے یہ قربانی بس اِس لیے دی کہ شیعہ روتے دھوتے رہیں؟ ایسے تکلیف دہ سوال پوچھتے ہوئے اِس طبقے کو ایک بار بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اگر یہ گریہ اتنا ہی غیر اہم تھا تو امام سجادؑ واقعہ کربلا کے بعد پینتیس برس کیوں گریہ کرتے رہے؟ سیدہ سلام اللہ علیھا نے کیوں اپنے بابا رسولِ خداؐ سے یہ سوال پوچھا کہ جب میرا حسینؑ پیاسا قتل کیا جائے گا تو اُسے روئے گا کون؟ سب سے اہم سوال یہ کہ کربلا شناسی، مقصدِ حسینؑ و کربلا کے نام پر جن افکار کی ترویج یہ لوگ اور ان کے واعظین کرتے نظر آتے ہیں، اِن کا ذکر معصومؑ کی کس زیارت میں کیا گیا ہے؟ حدیث کی کس کتاب میں بیان ہوا ہے؟ آپ کو معصومؑ کی زیارتوں میں، حدیث کی کتابوں میں اور صدیوں قبل پیدا اور وفات پانے والے علماء کے اقوال میں اُس گریہ کی اہمیت میں تو لاتعداد ثبوت مل جاینگے جسے یہ گروہ فقط رونا دھونا قرار دیکر اِس عظیم نعمت کی تحقیر کرتا ہے لیکن اِس گروہ کے افکار کی تائید میں کسی زیارت نامے میں، کسی حدیث میں کوئی ثبوت نہ ملے گا۔ لہذا بقول مولانا سید ابوطالب طباطبائی جب بھی کوئی واعظ کربلا شناسی، کربلا کا مقصد یا مقصدِ حسینؑ جیسے الفاظ استعمال کرکے کچھ بیان کرنے لگے تو آپ کے ذہن میں فورا ایک سرخ لائٹ روشن ہوجانی چاہئے کہ آیا جو یہ کہہ رہا ہے کیا معصومؑ نے بھی ایسا ہی کہا؟ مجھے گھر جاکر مفاتیح الجنان کھول کر معصومؑ کے تعلیم کردہ زیارت نامے بغور پڑھنے چاہئے تاکہ مجھے معلوم ہو سکے کہ معصومؑ نے مجھے کیا حکم دیا ہے۔ یعنی کربلا شناسی بس وہی ہے جو معصومؑ نے بتلا دی، جو سیدہ زینبؑ بتلا گئیں۔
۔
غم امام حسینؑ میں بہنے والے آنسووں کو دانستہ یا غیر دانستہ اتنا غیر اہم سمجھنے والے یا بہانے بہانے اس گریہ کو فقط رسم قرار دینے والے لوگوں جیسے لوگ اگر امام رضا علیہ السلام کے دور میں ہوتے تو روز عاشور امام ؑ کے حکم پر مرثیہ پڑھنے والے دعبل خزاعی رض کو ٹوک کر کہتے کہ “صرف” رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، فکر و عمل کی باتیں کریں۔ رسمی شیعہ مت بنیں۔
یاد رہے دعبل خزاعی رض کا مرثیہ سن کر پردے کی دوسری جانب تشریف فرما کریمہ اہلیبیت سیدہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا پر شدت غم سے غشی طاری ہوگئی تھی۔ جبکہ امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے دعبل سے فرمایا تھا کہ کیا تیرے مرثیے میں کچھ مصرعے ہم بھی شامل کردیں؟ وہ مصرعے جن میں طوس میں بننے والی ایک تنہا قبر کا ذکر تھا، وہ قبر جسے محبان اہلیبیت علیھم السلام کی مودتوں کا مرکز بننا تھا۔ یعنی مرقد مطھر امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام۔
۔
میں بہت گناہگار اور بے عمل سا انسان ہوں، بقول مولانا اسد علی شاکری صاحب، نماز پڑھتا ہوں تو ذہن منتشر رہتا ہے، سو طرح کی سوچیں نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن میں موجود رہتی ہیں۔ لیکن جب فرشِ عزا پر بیٹھ کر امام حسینؑ کے مصائب سن کر دو آنسو بہانے کا شرف پاتا ہوں تو میرا ذہن منتشر نہیں ہوتا، میں اپنے مولاؑ کو یاد کرکے اِس یقین کے ساتھ گریہ کرتا ہوں کہ یہ گریہ میرے مقصدِ تخلیق میں سے ایک مقصد ہے۔ کوئی واعظ اگر مجھے کہے کہ گریہ تو کر لیا اب اِس سے اگلی منزل کی طرف بھی تو متوجہ ہو، کردار سازی اور کربلا شناسی کے بارے میں سوچو۔ گریہ کرکے ثواب تو پالیا اب معرفت کے ساتھ گریہ کرو۔ تو میں اِس واعظ سے یہ سوال ضرور پوچھوں گا کہ اے واعظ کیا تو واقعی یہ سمجھتا ہے کہ امام حسینؑ کی غم میں گریہ کرنا بذاتِ خود ایک معرفت نہیں؟ کیا میرے لیے یہی اعزاز کافی نہیں کہ اس بھری دنیا میں، انسانوں کے ہجوم میں، پروردگار نے مجھے اُن انسانوں میں شمار کیا جن کی آنکھ غمِ حسینؑ میں نم ہوجاتی ہے؟ میں یہ دعا کیوں نہ مانگوں کہ پروردگار تو نے مجھے غمِ حسینؑ میں گریہ کرنے کی نعمت عطا فرمائی ہے بس اِس نعمت کو مجھ سے دور نہ ہونے دینا۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ غم حسین علیہ السلام میں معرفت کے ساتھ گریہ کرنے سے کیا مراد ہے تو میں یہی جواب دوں گا کہ غمِ حسینؑ میں اور بھی شدت سے گریہ کرنا۔ کیوں کہ یہی وہ فریضہ ہے جو ذبح عظیم کے الوہی مقصد کی تکمیل کے بعد امام حسین علیہ السلام، سیدہ زینب سلام اللہ علیھا، امام سید سجاد علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے ہمارے ذمہ لگایا۔ کیا امام حسین علیہ السلام کی اپنے شیعوں کے نام وصیت یاد نہیں کہ جب ٹھنڈا پانی پیو مجھے یاد کرو جب کسی غریب الوطن یا شہید کا ذکر ہو تو مجھ پر گریہ کرو۔ یعنی ہمارے امام علیہ السلام تو اس وصیت کی ذریعے یہ بتلا رہے ہیں کہ میری پیاس کو یاد رکھو لیکن بعض بیدار اذہان اور واعظین ہمیں یہ باور کرواتے پائے جاتے ہیں کہ ہم نے پیاس کو یاد رکھا مقصد کو بھول گئے اور یہ بیانیہ اس قدر منظم انداز میں پھلایا گیا کہ اکثر سادہ لوح مومن بھی مولاؑ کی وصیت کے بجائے اِن واعظین کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ بقول علامہ ابو طالب طباطبائی ان سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ امام کے الفاظ کے ساتھ اپنے الفاظ ملا دینے کا حق انہیں کس نے دیا؟ کیا یہ نعوذ باللہ امام سے زیادہ عقل رکھتے ہیں؟ یعنی امام تو کہہ رہے ہیں میری پیاس میری مظلومیت کو یاد کرو اور گریہ کرو لیکن ان بیدار اذہان کا اصرار ہے کہ نہیں “فقط” اتنا کافی نہیں۔
اِس گروہ نے غم امام حسینؑ میں گریہ جیسی عظیم نعمت و سعادت کے خلاف کچھ اس طرح کے افکار پھیلا رکھے ہیں کہ کوئی زیارات و روایات میں موجود اِس عظیم سعادت اور فریضے کا ذکر کرے تو ایک گروہ فورا یہ دلیل لے کر آتا ہے کہ گریہ ضروری ہے لیکن امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی اہم ہے۔ مزید یہ کہ کیا امام حسینؑ نے نہی عن المنکر انجام دینے کیلئے ہی قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسینؑ نے قربانی اس لئے دی کہ ہم بس روتے رہیں؟ ایسے جملے ایک ناپختہ ذہن پر فوری اثر کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو ایسے جملوں کو گریہ و غمِ حسینؑ کے مقابل کھڑے کرنے والے دراصل دانستہ یا دانستہ یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ گویا امام حسینؑ، سید سجادؑ سے لیکر ہمارے ہر امامؑ نے جو ہمیں گریہ کی اہمیت بتائی اور اسے جاری رکھنے کا حکم دیا، وہ گریہ نعوذ باللہ خود امر بالمعروف وہ نہی عن المنکر نہیں ۔ کسی بھی محب اہل بیتؑ کیلئے اپنے امامؑ کا حکم اور امامؑ کے الفاظ حرفِ آخر ہوتے ہیں۔ جب امام حسینؑ نے اپنے شیعوں کو وصیت کرکے بتلا دیا کہ میری پیاس اور مظلومیت کو یاد رکھنا اور گریہ کرنا، جب سیدہ سلام اللہ علیھا نے اپنے باباؐ سے اپنے لختِ جگر کے غم میں رونے والی قوم کے بارے سوال پوچھ کر اِس گریہ کی اہمیت بتلا دی، جب سیدہ زینبؑ نے، سید سجادؑ نے اور ہمارے ہر امامؑ نے اِس گریہ و عزاداری کی تاکید کردی تو کیا یہ بات بذاتِ خود ثابت نہیں ہوگئی کہ ذبحِ عظیم کے اِس عظیم اور الوہی فریضے میں ہمارے مولاؑ نے قیامت تک پیدا ہونے والے شیعوں کا یہ فریضہ مقرر کیا ہے کہ اُن کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے گریہ و عزاداری کے ذرئعے امام حسینؑ کی مظلومیت اور اہل بیتؑ کے حق کو دنیا کے سامنے بیان کرتے رہیں۔ شیعوں کو تو فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے مولاؑ نے اپنے عظیم مقصد میں ایک ادنی سی ڈیوٹی ہماری بھی مقرر کردی، چہ جائکہ ہم اِس ڈیوٹی کی اہمیت کم کرکے یہ بتاتے رہیں کہ اپنی ڈیوٹی چھوڑو آو امام حسینؑ کا مقصد سمجھو۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا جو ہم حجتِ خدا کی ذبحِ عظیم کے من چاہے مقاصد بنا بنا کر پیش کرتے رہیں۔ یہ جسارت ہے بارگاہ ابا عبداللہؑ میں جیسے ہم مولاؑ سے یہ کہہ رہے ہوں کہ مولاؑ آپ کی وصیت ہم نے پڑھ لی، آپ کی اماں فاطمہ زہراؑ اور آپ کے جدؐ کے آپ کے غم سے متعلق سوال و جواب بھی پڑھ لیے، آپ کے وارث ائمہؑ کے احکام بھی پڑھ لیے، زیارات و روایات میں موجود اِس گریہ کی اہمیت بھی پڑھ لی لیکن مولاؑ معذرت ہم ذرا آپ کے مقصد پر بھی اپنی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ فقط رونا دھونا کافی نہیں۔ انصاف سے بتایئے اسے جسارت کہیں گے یا نہیں؟
اب کوئی بھی گروہ ہو اور کوئی بھی واعظ ہو، اگر وہ امام کی اِس وصیت کر پس پشت ڈال کر مقصدِ حسینؑ، کربلا شناسی، معرفت کے ساتھ گریہ اور اِن جیسی دیگر اصطلاحات استعمال کرکے اپنی دانست میں نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے تو اُس نے نعوذ باللہ خود کو امامؑ کے حکم کے خلاف کھڑا کیا۔
اب کوئی بھی گروہ ہو اور کوئی بھی واعظ ہو، اگر وہ امام کی اِس وصیت کر پس پشت ڈال کر مقصدِ حسینؑ، کربلا شناسی، معرفت کے ساتھ گریہ اور اِن جیسی دیگر اصطلاحات استعمال کرکے اپنی دانست میں نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے تو اُس نے نعوذ باللہ خود کو امامؑ کے حکم کے خلاف کھڑا کیا۔
۔
کوئی واعظ یا بیدار ذہن اگر مجھ سے پوچھے کہ معرفت کے ساتھ گریہ کرنے سے کیا مراد ہے تو میں یہی جواب دوں گا کہ غمِ حسینؑ میں اور بھی شدت سے گریہ کرنا۔ لہذا میں اقرار کرتا ہوں کہ میں غمِ حسینؑ میں معرفت کےساتھ گریہ کرنے کا حق ادا نہیں کر پاتا، میری دعا ہے کہ میں کسی حد تک یہ حق کبھی ادا کر پاوں۔
غمِ شبیرؑ اور حُبِ علیؑ ہے زندگی اپنی
یہ جذبہ دل میں رہتا ہے یہ سودا سر میں رہتا ہے
(مولانا مصطفی جوہرؒ)