عزاداری

اہل بیت علیھم السلام کو اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہر مدینہ سے بہت زیادہ محبت تھی لیکن اسلام کی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی بھی اپنے جد ص کے شہر میں سکون میسر نہ آیا۔ مصائب، جبر، جلا وطنی اور شہادت، بعد از رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہل بیت علیھم السلام کو مدینہ میں بس یہی کچھ ملا۔ اہل بیت علیھم السلام کو جس شہر سے بہت محبت تھی، جہاں وہ رہنا چاہتے تھے، وہاں انہیں قدم قدم پر مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہر سے محبت تو اہل بیت علیھم السلام کے ہر فرد کو رہی لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس شہر سے بچھڑنے کے بعد یہاں واپس آنے کیلئے سب سے زیادہ حسرت کا اظہار اور سب سے زیادہ سوال اگر کسی نے پوچھے تو امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ دختر شہزادی سکینہ سلام اللہ علیھا تھیں۔
تاریخ نے اس معصومہ کے ان تمام حسرت بھرے سوالوں کو محفوظ کیا ہے جو وہ اپنے بھائی سید سجاد علیہ السلام سے اور پھوپھی سیدہ زینب سلام اللہ علیھا واپس مدینہ جانے کیلئے پوچھتی رہی۔ دنیا شیعوں سے سوال پوچھتی ہے کہ ہم شہیدوں پر کیوں روتے ہیں، وہ تو زندہ ہیں۔ اور ہم دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم صرف شہیدوں کو نہیں روتے بلکہ ان مصائب پر روتے ہیں جو آل محمد علیھم السلام پر ڈھائے گئے۔ ایک چار سالہ بچی کربلا سے لیکر شام تک سخت ترین مصائب جھیلتی رہی، اپنے باپ کے سینے کو شدت سے یاد کرتی رہی، ایک ایک کر کے اپنے پیاروں سے بچھڑتی رہی اور یہ سب سہنے کے بعد اس کی بس ایک ہی حسرت تھی کہ وہ واپس اپنے گھر مدینے کب جائے گی؟ انسان صاحب دل ہو اور اولاد والا ہو تو سکینہ سلام اللہ علیھا کی یہ حسرت سن کر اس کا دل ضرور ڈوبنے لگے گا۔ وہ یہ کرب محسوس کرے گا کہ ایک بچی نے فقط چار سال کی عمر میں سخت ترین مصائب سہے ہیں اور اب وہ بس اپنے گھر جانا چاہتی ہے جہاں شاید اسے کچھ سکون و امان مل سکے لیکن اس کی یہ حسرت بھی پوری نہیں ہو پاتی اور وہ شام کے اسی تاریک زنداں میں چل بستی ہے جہاں اسے قید کیا گیا تھا۔
۔
ہم بھی کروڑوں عاشقان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح مدینہ منورہ کی زیارت کیلئے بے چین رہتے ہیں، اس شہر کی فضاؤں میں موجود مٹھاس اور ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہیں، یہاں کی گلیوں میں چلتے ہوئے چشم تصور سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان رستوں پر کبھی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک بھی مس ہوتے رہے ہونگے، سبز گنبد کی زیارت کو ہماری آنکھیں بھی بے تاب رہتی ہیں، ہم بھی شہر مدینہ کی شان میں لکھی نعتیں سن کر دل میں سرور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ایک فرق ہے ہم میں اور امت مسلمہ میں۔ ہم جب مدینہ جاتے ہیں تو یہ سب کچھ محسوس کرنے کے ساتھ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس شہر کی فضاؤں میں اہل بیت علیھم السلام کی حسرتیں اور سسکیاں بھی بسی ہوئی ہیں۔
ہم ان گلیوں میں چلتے ہوئے چشم تصور میں وہ منظر دیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ انہی رستوں سے کبھی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوں کو دوش مبارک پر سوار کیے گزرتے ہونگے اور پھر انہی رستوں سے کہیں ساتھ ہجری میں امام حسین علیہ السلام اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو، بھائی حسن مجتبی علیہ السلام کو اور ماں فاطمہ زہرا سلام اللہ کو سلام آخر کہنے کیلئے گزرے ہونگے۔ ہم جب گنبد خضری کی جانب دیکھ کر دل میں سرور محسوس کرتے ہیں تو ایک لمحے کیلئے ہمیں سبط رسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کے جنازے پر برستے تیر بھی یاد آتے ہیں۔ جب ہم جالی کے سامنے سے گذر کر دائیں جانب قبلہ رو ہوکر باقی امت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، کیوں کہ قبر مطھر کی جانب رخ کرکے دعا مانگنے کی اجازت نہیں، تو ہم بھی سب کی طرح دل ہی دل میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دل کی بہت سی باتیں عرض کرتے ہیں لیکن پھر باہر جنت البقیع کی طرف دیکھ کر بیت الحزن کو بھی یاد کرتے ہیں جہاں سیدہ سلام اللہ علیھا اپنے بچوں کے ہمراہ بیٹھ کر گریہ کیا کرتی تھیں۔ ہم جونہی بیت الحزن کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں فورا امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ بچی بھی یاد آجاتی ہے جس کی مدینہ آنے کی حسرت پوری نہ ہو سکی تھی۔ روضہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بقیع کی جانب جاتے ہوئے ہمیں کبھی بیت الحزن میں دادی کے گریہ کی یاد آتی ہے اور کبھی زندان شام میں پوتی کی سسکیوں کی۔
شاید باقی امت میں ہم میں فرق ہی یہی ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں اقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی محبت کے اظہار کی اپنی سی کوشش کرنے کے ساتھ “مودت فی القربی” کے اظہار کا حق ادا کرنے کی ادنی سی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ کوشش سوائے ان مصائب کو یاد کیے کیسے کی جا سکتی ہے جن کا سامنا بعد از رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کے اقربا یعنی اہل بیت علیھم السلام نے کیا۔ یہ کوشش ان حسرتوں کو یاد کیے بغیر کیسے کی جا سکتی ہے جو اہل بیت علیھم السلام کے قلوب مطھر میں موجود رہیں۔ جیسے امام حسن مجتبی علیہ السلام کی اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی حسرت, جیسے امام حسین علیہ السلام کی لاڈلی سکینہ سلام اللہ علیھا کی واپس مدینہ آنے کی حسرت۔