کریمِ اھلِ بیتؑ امام حسنؑ مجتبیٰ
کسی مجلس میں سُنا تھا کہ شام سے ایک شخص مدینہ امام حسنؑ کے پاس پہنچا۔ یہ شخص منفی پراپگنڈے کے اِس قدر زیرِ اثر تھا کہ امام حسنؑ سے ملتے ہی اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کردی، جو جو کچھ اُس نے شام میں امام حسنؑ سے متعلق سُن رکھا تھا، وہ سب اُس نے ایک ہی سانس میں امام حسنؑ کے سامنے بول دیا۔ امام حسنؑ اطمینان سے اُس کی باتیں سنتے رہے اور جب وہ خاموش ہوا تو اُس سے کہا کہ یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی، یہ بتاو تم مسافر ہو، سفر کرکے آئے ہو؟ کیا کھانا بھی کھایا ہے؟ باتیں تو ہوتی رہنگی، پہلے کچھ کھانا تو کھا لو۔ مدینہ میں اجنبی ہوگے، کہیں رہائش کا بندوبست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔ لباس تبدیل کرنا ہو تو میرا لباس حاضر ہے۔ باقی شکوے شکایتیں تو ہوتی رہینگی۔
۔
شام کے پراپیگنڈے کا شکار یہ شخص کچھ دیر گم سم یہ سب سنتا رہا اور پھر بے اختیار یہ کہہ اُٹھا
” جب میں آیا تھا تو آپ سے زیادہ کسی سے نفرت نہیں کرتا تھا، اور جب میں یہاں سے جاوں گا تو آپ سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کروں گا۔ “
۔
تاریخ امامِ حسنؑ کو کریمِ اہلیبیتؑ کی نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ اُس ہستی ص کا وارث ہیں جنہوں نے پتھر کھا کر دعائیں دی تھیں۔ آج آپ ۲۸ صفر پر شہادتِ امام حسنؑ کی مناسبت سے برآمد ہوئے کسی جلوس میں چلے جائیں، شبہیہِ تابوت سے لپٹ کر توسل کرنے والوں اور گریہ کرنے والوں کو دیکھ لیں، کسی مجلس میں شرکت کر لیں، ۱۵ رمضان جشنِ آمدِ امام حسنؑ میں چلے جائیں یا گھروں میں امام حسنؑ کے وسیع دسترخوان کو یاد کرتے ہوئے بچھائے جانے والے دسترخوانِ امام حسنؑ میں شرکت کر لیں۔ آپ کو ہر جگہ کریمِ اہلیبیتؑ کی کرامتوں کے جلوے نظر آینگے۔
۔
میں نے کسی مجلس میں یہ بھی سنا تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسنؑ کی ولادت باسعادت پر بہت زیادہ خوشی منائی تھی۔ یہاں تک کہ کسی نے اعتراض کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آپ ص اپنے نواسے کی ولادت پر اِس قدر خوشی کیوں منا رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ یہ فقط نواسے کی خوشی نہیں ہے بلکہ یہ سورہِ کوثر کی تفسیر کی خوشی ہے۔ یعنی سورہ کوثر کی عملی تفسیر کا نام امام حسنؑ ہے۔
۔
سورہ کوثر میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن کے بے نام و نشان ہونے کا اعلان ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ سورہ کوثر سے لیکر کربلا تک، دشمن بے نام و نشان ہی ہوتا رہا۔ سورہ کوثر قران کا معجزہ اور کربلا وارثانِ قران کا معجزہ۔ یہ کربلا ہی تو ہے جس کیلئے امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے بھائی حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ لا یوم کیومک یا ابا عبداللہ یعنی تمہارے دن (عاشور) جیسا کوئی دن نہ ہوگا اے ابا عبداللہ۔
۔
۱۵ رمضان المبارک اُس کریمِ اہلیبیتؑ کی آمد کا دن ہے جس کی آمد کی خوشیاں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس خصوصیت کی ساتھ منائیں تھیں کہ میرا یہ نواسہ دراصل سورہِ کوثر کی تفسیر ہے۔ آئیں ہم سب اِس مبارک موقع پر بارگاہِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے اپنے ذہنوں کو اس حقیقیت کی جانب متوجہ کریں کہ:
۔
“سورہ کوثر گواہ ہے کہ اِن اہل بیتؑ رسولؐ کا دشمن سدا بے نام و نشان (ابتر) رہے گا۔ “
یا کریمِ اہل بیتؑ، روحی لک الفداء۔
تمام محبان اہل بیت علیھم السلام کو مولا حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی آمدِ پرنور بہت بہت مبارک۔