عزاداریمتفرق موضوعات

محرم اور قبولیت پسندی کے مریض

ایام عزا میں ناصبیوں سے زیادہ بدبودار کردار ان قبولیت پسندوں کا ہوتا ہے جو خود کو امام حسین علیہ السلام کا چاہنے والا بھی کہتے ہیں اور غم ِامام حسین علیہ السلام کے خلاف بہانے بہانے سے بغض بھی ظاہر کرتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ محبت ِامام حسین علیہ السلام کا اظہار بھی ہوجائے اور امامؑ کا غم منانے والوں سے نفرت رکھنے والوں کی واہ واہ بھی سمیت لی جائے۔

 

عام طور پر یہ قبولیت پسند ایامِ عزا میں غمِ حسینؑ میں گریہ و ماتم کرنے والوں اور خانوادہِ رسالتؐ پر ڈحائے جانے والے مظالم کا سوگ منانے والوں کو طعنے دیتے نظر آتے ہیں کہ اِن لوگوں کو مقصدِ امام حسینؑ کا کچھ بھی علم نہیں، بس صدیوں سے روئے جا رہے ہیں۔ طرح طرح کی پرکشش اصطلاحات استعمال کرکے لوگوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ تمام تر سمجھداری اور بیداری اِن قبولیت پسندوں پر نازل ہوگئی ہے اور دنیا بھر میں موجود کروڑوں شیعہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ غم حسین علیہ السلام رسم نہیں ہے، جو بدبخت اسے رسم سمجھتا ہے اسے فلسفہ عزاداری کی سمجھ ہی نہیں۔ یہ شیعوں کی ایجاد کردہ رسم نہیں ہے بلکہ اسے ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے خود انجام دیکر بتایا کہ اس غم کو کبھی فراموش نہ ہونے دینا۔ امام رضا علیہ السلام سے جب سوال پوچھا گیا تھا کہ آخر ہر سال کربلا کا اتنی شدت سے تذکرہ کیوں ضروری ہے تو امام ع نے فرمایا تھا کہ ہم کربلا کو اتنی شدت سے اس لیے یاد کرتے ہیں تاکہ لوگ غدیر کی طرح کربلا کو بھی نہ بھول جائیں۔
۔
لوگ معلوم نہیں ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں موجود کروڑوں شیعہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ بس بغیر کسی پس منظر یا سوچ کے صدیوں سے ایک غم میں بے اختیار روئے جارہے ہیں، زمانہ مخالفت کر رہا ہے، ان پر حملے ہو رہے ہیں لیکن وہ اس غم سے جدا نہیں ہو رہے۔ ریڑھی بان، کسان، محنت کش سے لیکر ڈاکٹر انجینئر اور سائنسدان تک۔ غرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شیعہ اس غم کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ بلکہ اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے۔ کسی قبولیت پسند کے نزدیک کیا یہ سب عقل سے عاری اور تنہا یہ عقلیت پسند اور حریت فکر کے داعی ہیں؟ خبط عظمت کی معراج پر بیٹھے ان پاپولسٹ حضرات کو خود کو ارسطو دوران سمجھنے کے بجائے ان شخصیات کی آراء پر غور کرنا چاہیے جن کی عمریں کربلا پڑھتے اور سمجھتے گزر گئیں۔
علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ کی تمام عمر ذکر کربلا میں گزری۔ ان کے اپنے الفاظ نقل کروں تو وہ کہا کرتے تھے عربی، فارسی اور اردو زبان میں موجود شاید ہی مقتل کی کوئی کتاب جو انہوں نے نہ پڑھ رکھی ہو۔ خود حدیث کربلا جیسی مقتل کربلا کی مستند کتاب لکھی۔ ان کی ذاتی لائیبریری غالبا برصغیر کی سب سے بڑی ذاتی لائبریری ہے جس میں موجود ہزاروں کتابوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا یہ تمام کتب انہوں نے پڑھ رکھی ہیں۔ ان میں وہ قدیم قلمی نسخے بھی شامل ہیں جو صرف علامہ صاحب کی لائبریری میں موجود ہیں۔ انہی کتب سے علم کشید کرکے وہ اپنی بے مثل خطابت کے ذرئعے پانچ دہائیوں تک سامعین تک پہنچاتے رہے۔
جس شخصیت نے تمام عمر کربلا پڑھی، کربلا بیان کی اور کربلا سمجھائی۔ اس شخصیت اپنی تمام محنت، ریاضت اور تحقیق کے بعد یہ نتیجہ فکر پیش کیا کہ آل محمد علیھم السلام نے ظلم کے خلاف جتنے جہاد کیے ان میں سب سے بڑا جہاد گریہ تھا۔ کیوں کہ انسان کی فطرت ہے وہ راستے میں کسی کو ہنستا دیکھتا ہے تو غور نہیں کرتا لیکن کسی کو روتا دیکھ لے تو ایک بار رک کر پوچھتا ہے اے رونے والے بتا تیرے رونے کا سبب کیا ہے۔
شیعوں نے عزاداری کی صورت احتجاج کا یہ طریقہ آل محمد علیھم السلام سے سیکھا ہے۔ یہ جو خود کو سوشل میڈیا پر بڑی بڑی فالوونگ رکھنے والے قبولیت پسند حریت پسندی، مزاحمت اور اس جیسی پرکشش اصطلاحات کے ذرئعے شیعوں کو طعنے مار کر ان کے دشمنوں سے واہ واہ سمیٹتے ہیں۔ یہ ذرا ہمیں سمجھائیں تو سہی کہ وہ کون سی حریت پسندی اور مزاحمت ہے جو عزاداری امام حسین علیہ السلام سے بڑی مزاحمت اور حریت پسندی ہے؟ اس ملک میں بیس ہزار سے اوپر شیعہ مارے گئے، جس جلوس میں دھماکہ ہوتا تھا وہی جلوس کچھ دیر بعد علم اٹھائے آگے بڑھتا نظر آتا تھا۔  ذکرِ حسینؑ کے دشمن عین محرم سے قبل اکٹھا ہوکر کراچی جیسے بڑے شہر میں ریلیاں نکال کر شیعوں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں تو  فقط چند ہفتوں کے بعد اربعینِ حسینیؑ کے موقع پر پورے ملک میں کے کونے کونے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں شیعہ باپیادہ لبیک یاحسینؑ کے نعرے لگاتے ہوئے نجف و کربلا کے درمیان اربعین کے موقع پر ہونے والی مشی یعنی اربعین واک کی یاد دلا دیتے ہیں۔    اِنہیں ہر فتوی قبول ہے لیکن عزاداری کے خلاف کسی کے عزائم ہر گز قبول نہیں۔ جس مسجد میں فجر کے وقت خون بہایا جاتا تھا اسی مسجد میں ظہرین کی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ کراچی کوئٹہ دی آئی خان کے قبرستان شہداء کی قبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان میں وہ جوان بھی ہیں جن کے بوڑھے باپ علی اکبر علیہ السلام کے نوحے پڑھتے ہوئے جوان بیٹے کو دفناتے رہے۔ خدا جانے یہ خود کو امام حسین علیہ السلام کے مقصد کو تن تنہا سمجھنے والے قبولیت پسند شیعوں کو اور کیا مزاحمت کرتا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کہاں جا کر لڑ مر جائیں؟ کون سا استکبار ہے جس سے یہ ہمیں ٹکرا دینا چاہتے ہیں؟ کچھ پتا تو چلے بھائی کیا چاہتے ہیں آپ؟
۔
ایک بات جو یہ قبولیت پسند سمجھ نہیں پاتے کہ عزاداری  یا غمِ حسینؑ مکتب تشیع کی شناخت ہے اور قابلِ فخر شناخت ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے صدیوں سے اِس غم کو سینے سے لگا کر ہر قسم کے جبر کر مقابلہ کیا اور دنیا کو کربلا میں ڈھائے جانے والے ظلم کو بھولنے نہ دیا۔ ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے عزاداری کہ نہیں بلکہ اِس عزاداری نے ہماری حفاظت کی ہے۔ محرم اور بالخصوص محرم کے پہلے دن دن تشیع کی بھرپور عکاسی کے دن ہیں اور یہ عکاسی ماتم و گریہ و زاری کی محتاج ہے۔ شیعہ پورا سال روتے نہیں رہتے۔ محرم اور بالخصوص محرم کے پہلے دس دن تشیع کی بھرپور عکاسی کے دن ہیں۔ اِن ایام میں صدیوں سے غمِ حسینؑ میں گریہ کرکے یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ غم ہماری شناخت ہے، یہ گریہ اُس دکھیاری ماں فاطمہ زہراؑ کے سوال کا جواب ہے کہ باباؐ جب میرا حسینؑ قتل کیا جائے گا تو اُس پر روئے گا کون؟ کسی قبولیت پسند کو شیعوں کا جواب پسند نہیں آتا تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔
جب کوئی  آپ سے یہ کہے کہ اِس ماتم اور سوگ کا کیا فائدہ، یہ تو رسم ہے، مقصدِ حسینؑ کو سمجھو وغیرہ وغیرہ تو دراصل وہ آپ کی شناخت بلکہ قابلِ فخر شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔آپ کو چاہئے کہ ایسے ہر شخص کو یہ باور کروائیں کہ تم  غمِ حسینؑ پر رونے سے نہیں بلکہ ہمیں ہماری شناخت ترک کردینے کا مشورہ دے رہے ہو۔
۔
ایک بات اور جو یہ پاپولسٹ خواتین و حضرات بہت تواتر سے کرتے ہیں۔ جہاں محرم شروع ہوا اور فورا ان قبولیت پسندوں کو خیال آیا کہ شیعہ تو محرم میں فساد پھیلاتے ہیں؟ اختلافی باتیں کرکے شیعوں اور سنیوں کے درمیان فاصلے بڑھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک شیعوں کو ان اختلافی موضوعات پر بات نہیں کرنی چاہیئے بلکہ مل جل کر رہنا چاہئے اور ایسی باتیں کرنی چاہیئے جن سے دوریاں کم ہوں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ قبولیت پسند خود پہل کرتے ہیں اور خود کو “صرف مسلمان” بتلا کر کسی ایسی شخصیت کی شان میں مفصل تحریر بھی لکھ دیتے ہیں جن سے شیعوں کو اختلاف ہو۔ میں اسے قبولیت پسندی کی پست ترین صورت نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ آپ کو آج تک بقائے باہمی کا مطلب ہی معلوم نہ ہو سکا۔ آخر آپ کیوں چاہتے ہیں کہ شیعہ اپنے نظریات و افکار کو بالائے طاق رکھ کر اہل سنت کی بی ٹیم بن جائیں؟ بھائی ہم شیعہ کیوں ہیں؟ ہم شیعہ اس لیے ہیں کیوں کہ ہمارا برادران اہل سنت سے کچھ اہم ترین معاملات پر اختلاف ہے۔ اصول پسندی اور بقائے باہمی کا تقاضا یہ ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کیا جائے نہ کہ ایک فریق کو ایموشنل بلیک میل کیا جائے کہ دیکھو تمہارے نظریات کی وجہ سے تو اختلاف و فساد پھیلتا یے، تم کیوں مل جل کر نہیں رہتے کیوں میری طرح پاپولسٹ بن کر ویسے مضمون نہیں لکھتے جنہیں پڑھ کر سنی کہہ اٹھے “یہ ہے اصل شیعہ”۔ ارے بھائی ہم شیعہ ہیں تو اسی لیے ہیں کہ ہم ان موضوعات پر الگ رائے رکھتے ہیں جن پر بات کرنے کو تم منع کرتے یا کرتی ہو۔
دنیا بھر میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو احساس جرم میں مبتلا کرکے اسے اپنے نظریات بیان کرنے سے روکا جائے۔خدا ان قبولیت پسندوں کو عقل سلیم عطا کرے تاکہ انہیں سمجھ آسکے کہ یہ اس دنیا میں اکیلے سمجھدار پیدا نہیں ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں قبولیت پسندی اور پاپولزم کے مرض سے نجات دے اور انہیں بقائے باہمی کو اصول سمجھنے کی توفیق دے۔ خدا ان کے دل میں یہ خیال بھی ڈال دے کے بھائی سارے سمجھوتے، ساری مصلحتیں شیعوں کا ہی مقدر نہیں۔ کچھ ذمہ داری دوسروں کی بھی ہے۔ اور اگر دوسرے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو یقین کیجئے ہم شیعوں کو ذرہ برابر پریشانی نہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں وہ الگ ہیں ہم الگ۔ ہم ان کے نظریات کے ساتھ انہیں قبول کرتے ہیں، وہ بھی کریں اور مل جل کر رہیں۔