باب الحوائج بی بی اُم البنینؑ
جناب ام البنین سلام اللہ علیھا نے امام علی علیہ السلام سے عقد کے بعد گھر میں داخل ہونے سے قبل گھر کی چوکھٹ یعنی در سیدہ سلام اللہ علیھا کو بوسہ دیا، سجدہ شکر ادا کیا اور خود کو اس گھرانے کی کنیز قرار دیا۔ ایسا کرکے جناب ام البنین سلام اللہ علیھا نے امت کو یہ سمجھایا کہ در فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تعظیم کیسے کی جاتی ہے۔ یہ یاد دلایا کہ یہ در تعظیم کے لائق ہے، جلائے جانے کے نہیں۔
مادر گرامی سرکار ابوالفضل العباس علیہ السلام کا اصل نام فاطمہ بنت حزام تھا لیکن وہ اپنے چار فرزندان کی وجہ سے ام البنینؑ کے نام سے معروف ہوئیں۔ اُن کے چاروں فرزند اور ایک پوتا کربلا میں نصرتِ امام حسینؑ میں شہید ہوئے۔ علامہ رشید ترابی اعلی اللہ مقامہ کا مشہور جملہ ہے کہ جناب اُم البنینؑ کا بہت احسان ہے قیامِ حق پر۔ چار بیٹے تھے، ایک پوتا تھا۔ یعنی پانچ قربانیاں اور ایک گھر۔
اپنے فرزند مولا ابوالفضل العباس علیہ السلام کی طرح جناب ام البنین سلام اللہ علیھا بھی باب الحوائج کے لقب سے جانی جاتی ہیں۔ ام البنین کا لفظی معنی تو بیٹوں کی ماں ہے لیکن جہاں معاملہ مودت اور نسبت کا آجائے تو وہاں اہل مودت نسبت کو مقدم رکھتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ اگر پروردگار نے انہیں بیٹی کی رحمت سے نوازا تو وہ اس کا نام سرکار ابوالفضل العباس علیہ السلام کی والدہ گرامی کے لقب کی نسبت سے ام البنین رکھیں گے۔ برصغیر پاک و ہند میں والدین اِسی متبرک لقب کی نسبت سے اپنی بیٹیوں کے نام اُم البنین یا بنین رکھتے ہیں۔ چونکہ جناب ام البنینؑ، سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ہم نام تھیں لہذا اہل مودت اپنی اولاد کے نام اُن کے لقب کی نسبت سے رکھ کر اپنے قلوب کو تسکین پہنچاتے ہیں اور یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ اُن کی قرۃ العین کا نام اُس ہستی کی نسبت سے رکھا گیا ہے جو خود بھی باب الحوائجؑ ہیں اور جن کا فرزند ابوالفضل العباسؑ بھی باب الحوائج ہے۔
َ
جناب ام البنین سلام اللہ علیھا کربلا نہیں گئیں تھیں اور مدینہ میں جناب ام سلمی سلام اللہ علیھا اور جناب فاطمہ صغری سلام اللہ علیھا کے ساتھ موجود رہی تھیں۔ علامہ علی نقی نقویؒ (نقن صاحب) نے جناب ام البنین سلام اللہ علیھا کے مدینہ میں رہ جانے اور قافلہ حسینی کے ہمراہ نہ جانے سے یہ استدلال قائم کیا ہے کہ جنابِ اُم البنینؑ یہ گوارا کیسے کر سکتی تھیں کہ وہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے ہمراہ نہ جائیں اور اُنہیں تنہا چھوڑ دیں؟ لہذا اُن کے نہ جانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ امام حسینؑ نے اُن کے سپرد مدینہ کی اہم ذمہ داریاں کی تھیں بلکہ امام حسینؑ کی ایک بیمار دختر بھی مدینہ میں موجود تھی، جس کی تیمارداری کیلئے جنابِ اُم البنین مدینہ میں رُک گئیں۔
۔
جنابِ اُم البنینؑ کربلا تو نہ گئی تھیں لیکن واقعہ کربلا کے بعد وہ اکثر بقیع میں بیٹھ کر گریہ و زاری کیا کرتی تھیں۔ جس طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے ظاہری پردہ فرما لینے کے بعد جنابِ سیدہ سلام اللہ علیھا ہر روز بقیع میں بیت الحزن میں بیٹھ کر گریہ کیا کرتی تھیں۔ جنابِ اُم البنینؑ بقیع میں بیٹھ کر امام حسینؑ کو اور اپنے فرزندان بالخصوص مولا عباسؑ کو یاد کرکے مرثیہ کہا کرتی تھیں اور اِس قدر شدت سے گریہ کیا کرتی تھیں کہ دشمنان اہلیبیت کے دل بھی یہ منظر دیکھ کر پسیج جایا کرتے تھے۔ علامہ رشید ترابی اعلی اللہ مقامہ تذکرہ جنابِ اُم البنینؑ کرتے ہوئے مروان بن حکم کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب اُس نے بقیع کے قریب سے گزرتے ہوئے کسی بی بی کو شدت سے گریہ کرتے ہوئے پایا تھا اور غور سے سننے پر اُسے بین کے یہ الفاظ سنائی دیئے تھے:
“عباسؑ تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسینؑ نہ مارا جاتا۔”
میں نے جب جنابِ اُم البنینؑ کے بین کا یہ جملہ پڑھا تو میرے دل میں بے اختیار اُس کیفیت کا خیال آیا جو آٹھ محرم الحرام کو ہر عزادار محسوس کرتا ہے۔ وہ کیفیت جس میں ہر عزادار کے دل کی یہی آواز ہوتی ہے کہ “کاش عباسؑ نے مارے جاتے”۔
میرے دل نے کہا کہ عزاداروں کی یہ کیفیت دراصل جنابِ اُم البنینؑ کی حسرت کی یادگار ہے۔ وہ حسرت جس کا اظہار وہ بقیع میں شدت سے گریہ کرتے ہوئے کیا کرتی تھیں۔ کون نہیں جانتا کہ ایامِ عزا میں آٹھ محرم کی تاریخ تذکرہ شہادتِ مولا ابو الفضل العباسؑ سے منسوب ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ تاریخ صدیوں سے ہر برس آتی ہے، ہر برس مصائبِ ابوالفضلؑ بیان ہوتے ہیں لیکن اِس کے باوجود یہ اعجازِ ذاتِ ابوالفضلؑ ہے کہ ہر عزادار کے دل میں ڈھارس جیسی ایک کیفیت موجود ہوتی ہے کہ ابھی کربلا میں ہمارے مولا عباسؑ موجود ہیں۔ لیکن یہ ڈھارس اور آس ہر سال اُس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب ذاکر مولا حسینؑ کا یہ جملہ دہراتا ہے:
“بھیا عباسؑ، آج میری کمر ٹوٹ گئی”۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ جن عزاداروں کی آس ہر برس آٹھ محرم کو ٹوٹ جاتی ہے، مولا عباسؑ اُن کی آس پھر تمام برس ٹوٹنے نہیں دیتے۔
۔
اپنے بابا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جُدا ہونے کے بعد سیدہ زہرا سلام اللہ علیھا بقیع کے بیت الحزن میں گریہ کرکے آنے والے زمانوں کیلئے یہ درس دیتی رہیں کہ ہمارے غم میں غمگین ہونے والے ہماری سنت پر عمل کریں گے. شام کے زندان سے رہائی کے بعد سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے ایک مکان کا انتظام کرنے کو کہا تاکہ وہ یہاں فرشِ عزا بچھا کر اپنے بھائی کا پرسہ لیں اور آنے والے زمانوں کو یہ پیغام دیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے غم میں میرے نانا رسولِ خداؐ اور تمام انبیاء نے بھی گریہ کیا۔ آنے والے زمانوں میں میرے بھائی حسینؑ کو یاد کرکے رونے والوں تک یہ پیغام یقینا پہنچے گا کہ رہائی کے بعد ثانی زہراؑ نے سب سے پہلا مطالبہ فرشِ عزا بچھانے کا کیا تھا تاکہ اپنے بھائی کا پرسہ لے سکیں۔ آنے والے زمانوں میں جب لوگ میرے بھائی حسینؑ کو یاد کرکے روئیں گے تو اُنہیں یہ خیال ضرور آئے گا کہ اُن کا بے اختیار گریہ کرنا دراصل ایک بیٹیؑ کو لسانِ رسالتؐ سے دیئے گئے اِس سوال کا جواب ہے کہ “باباؐ، میرے حسینؑ پر روئے گا کون؟
واقعہ کربلا کے بعد اپنے پوتے عبیداللہ ابن ابوالفضل العباسؑ کے ہمراہ بقیع میں بیٹھ کر اپنے مرثیہ کے اشعار پڑھ کر گریہ و زاری کرنے والے جنابِ اُم البنینؑ بھی واقف ہونگی کہ آنے والے زمانوں میں میرے حسینؑ اور عباسؑ کے چاہنے والوں تک یہ بات ضرور پہنچے گی کہ ایک دکھیاری ماں بقیع میں بیٹھ کر عزاداری کیا کرتی تھی، اُس کی عزاداری اور گریہ و زاری دیکھ کر وہاں اہلِ مدینہ جمع ہوجاتے تھے اور وہ بھی گریہ کرتے تھے۔ اُنہیں ضرور خبر ہوگی کہ صدیوں بعد جب کوئی میرے پیاروں کے غم میں رونے والوں، اُن کی یاد میں فرشِ عزا بچھانے والوں اور جلوس برآمد کرنے والوں سے سوال پوچھے گا کہ یہ سب کیوں کرتے ہو تو وہ جواب دیں گے کہ ہم تو بس اپنے مرشد و مولا عباسؑ کی والدہ گرامی جنابِ اُم البنینؑ کی پیروی کرتے ہوئے عزاداری کر رہے ہیں۔
۔
تیرہ جمادی الثانی مادرِ مولا ابوالفضل العباسؑ جنابِ اُم البنینؑ کی رحلت کا دن ہے۔ وہ اُم البنینؑ جنہیں جب اُن کے فرزندان اور بالخصوص مولا عباسؑ کی کربلا میں شہادت کی خبر ملی تو پہلا سوال یہ پوچھا کہ کیا میرا حسینؑ زندہ ہے اور جواب سُن کر بس اتنا کہا:
“کاش میرے بیٹے اور زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے، سب قربان ہوجاتا۔ بس میرا حسینؑ موجود ہوتا۔”۔
بارگاہ مولا حسینؑ و ابوالفضل العباسؑ اور امام زمانہ صلوات اللہ علیہ میں تمام عزاداروں کا پرسہ و تعزیت۔