تذکرہِ اہل بیتؑ

سیدہ سلام اللہ علیھا کی ناراضگی

مجھ سے ایک بار میرے ایک اہلسنت دوست نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ بعض انتہائی معتبر اور باعظمت اصحاب ِ رسولؐ سے ناراض رہتے ہیں؟ وہ اصحاب جن کی ہم اہلسنت کے ہاں بے انتہا تکریم و تعظیم کی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیا قصور ہے اُن کا؟ خود سوچیں جن شخصیات نے رسولؐ اللہ کے ساتھ وقت گزارا ہو، آپؐ سے تربیت پائی ہو، اُن سے ناراض رہنا ہم جیسے عام انسانوں کیلئے جسارت اور اپنی اوقات سے بڑی بات نہیں؟
میں نے دوست سے کہا کہ میں آپ سے متفق ہوں۔ ہماری واقعی کوئی حیثیت اور اوقات نہیں کہ ہم اتنی بڑی شخصیات سے ناراض ہونے کا دعوی کریں۔ یہ واقعی جسارت ہے لیکن میں آپ کو مکمل یقن کے ساتھ ایک بات بتانا چاہوں گا کہ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں کہ ہم بعض شخصیات سے ناراض رہتے ہیں تو یہ جملہ اور بیانیہ درست نہیں۔ ہم کسی سے ناراض نہیں۔ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا جو ہم کسی سے ناراض ہوں۔  ہمارا معاملہ بہت سادہ سا ہے۔ ہم بس یہ دیکھتے ہیں کہ اہل بیتؑ کن سے راضی ہیں اور کن سے ناراض۔ جب یہ طے ہوجائے کہ کسی شخصیت سے اہل بیتؑ راضی ہیں تو ہم اُس شخصیت کے غلاموں کے غلام کہلوانے کو بھی اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ طے ہوجائے کہ کسی شخصیت سے اہل بیتؑ ناراض ہیں تو ہم اُس شخصیت سے دور ہوجاتے ہیں۔ نہ ہماری ناراضی اپنی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ہے اور نہ ہی محبت۔ میں نے دوست سے کہا کہ دراصل یہاں ایک بہت بنیادی فرق عقیدے کا بھی ہے۔ آپ دوست سیدہ سلام اللہ علیھا کی بہت تعظیم کرتے ہیں لیکن صرف اس لیے وہؑ دخترِ رسولِ خداؐ ہیں، سیدہ نساء العالمینؑ ہیں اور جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔  جبکہ ہمارے لیے سیدہ سلام اللہ علیھا مقام عصمت و طہارت پر فائز ایک ہادیہِ بر حق ہیں۔ ہمارے گیارہویں امام اہل بیتؑ کے فرمان کے مطابق ائمہ اہل بیتؑ خدا کی طرف سے ہم (شیعوں) پر حجت ہیں اور سیدہ سلام اللہ علیھا خدا کی طرف سے ائمہ اہل بیتؑ پر حجت ہیں۔یہ مقام و مرتبہ ہے سیدہ سلام اللہ علیھا کا۔  حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا بڑے سے بڑا عالم بھی مقام و منزلت سیدہؑ کو درک کرنے یا بیان کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتا اسی لیے “و ما ادراک ما فاطمہؑ” کہہ کر بارگاہِ سیدہؑ میں سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر مولائے کائناتؑ نہ ہوتے تو سیدہ نساء العالمینؑ کا کوئی کفو نہ ہوتا۔ آپ کبھی ہماری مجالس میں تواتر سے بولے جانے والے سیدہ سلام اللہ علیھا کے القاب پر غور کیجئے گا تو آپ سمجھ سکیں گے کہ مکتب اہل بیتؑ میں مقامِ سیدہؑ ہے کیا۔ صرف ایک لقب اُم ِابیھا پر غور کر لیجئے گا تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔بقول علامہ طالب جوہریؒ رسولِؐ خدا جب اپنی دختر فاطمہ زہراؑ کی آمد پر اُنؑ کا استقبال کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے تو یہ باپؐ کا اپنی بیٹیؑ کیلئے احترام نہیں تھا بلکہ ایک ہادیؐ کا دوسرے ہادیؐ کیلئے احترام تھا۔
دوست نے کہا یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ کی کسی شخصیت سے محبت یا دوری کی بنیاد یہ ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیھا اُس سے راضی ہیں یا ناراض؟ میں نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے۔ دوست نے کہا کوئی مثال دیجئے تو میں نے فورا جنابِ سلمان محمدیؑ کی مثال دی جنہیں رسولِ خداؐ نے اہل بیتؑ میں شمار کیا۔ وہ در سیدہؑ کی چوکھٹ پر اپنے بالوں سے جھاڑو دیا کرتے تھے، اب درِ سیدہؑ کی ایسی تعظیم کرنے والی شخصیت ہو تو خود بتائیں ہم ایسی شخصیت کے قدموں کی خاک بننے کی دعا کریں گے یا نہیں؟ دوسری جانب اسی درِ سیدہؑ کے سامنے شور و غل بپا ہو، لکڑیاں لاکر اکٹھی کی جائیں، دروازے کو آگ لگے اور اُسے گرا دیا جائے۔جلتا ہوا دروازہ  گرنے سے سیدہ سلام اللہ علیھا کا پہلو زخمی ہوجائے، جناب محسن ابن علیؑ شہید ہوجائیں۔ اب آپ خود بتائیں  ایسا کرنے والوں کیلئےہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟ دوست نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ سب کب ہوا تھا؟ میں نے کہا آپ سب کچھ مجھ سے نہ پوچھئے، آپ ایک بار تسلی کے ساتھ خود تاریخ کی کتب پڑھ لیجئے کہ رسولِؐ خدا کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد سیدہؑ پر کیا مصائب ٹوٹے۔ تحقیق کیجئے کہ جنت البقیع میں امام علیؑ نے بیت الحزن نامی حجرہ کیوں تعمیر کیا تھا اور اِس حجرے میں سیدہ سلام اللہ علیھا حسنینؑ کریمین کے ہمراہ ہر روز تشریف فرما ہوکر تمام دن گریہ کیوں کرتی تھیں؟ اگر تمام تفصیل پڑھنے کا وقت نہ ملے تو کم از کم اپنی حدیث کی مستند کتب میں فقط اتنا ڈھونڈ کر تو ضرور پڑھ لیجئے گا کہ سیدہؑ کن شخصیات سے راضی تھیں اور کن سے ناراض۔ نیز رسولِ خداؐ نے سیدہ سلام اللہ علیھا کی ناراضگی کو کس کی ناراضگی سے تعبیر کیا؟ لہذا جب آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ سیدہؑ کن سے ناراض رہیں اور سیدہ سلام اللہ علیھا کی ناراضگی کا مطلب کیا ہے تو آپ کو مجھ سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ہم بعض شخصیات کی جانب کھچے کیوں چلے جاتے ہیں اور بعض سے کھچے کھچے کیوں رہتے ہیں۔ یہ سارا معاملہ آقا زادی سیدہ نساء العالمینؑ سے وفاداری کا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم سیدہؑ کی ناراضگی کو لیکر بہت زیادہ حساس یا Sensitive واقع ہوئے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے دل میں کسی ایسی شخصیت کیلئے ذرہ برابر بھی نرم گوشہ پیدا ہو جس سے سیدہؑ راضی نہ تھیں۔ یہ فطری امر ہے، آپ ہماری کیفیت، ہماری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ یہ فرقہ واریت یا جسارت نہیں ہے بلکہ جب آپ کچھ لمحوں کیلئے خود کو ہماری جگہ رکھ رکھ کر سوچیں گے تو آپ کو ہماری کیفیت سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی۔
۔
دوست نے بغور میری باتیں سنیں اور مجھ سے تاریخ اور حدیث کی متعلقہ کتب کے نام اور ریفرنس لیکر یہ کہتا ہوا رخصت ہوگیا کہ دخترِ رسولؐ کی ناراضگی تو میرے لئے بھی بہت Sensitive معاملہ ہے اور میں دل میں یہ سوچتا رہ گیا کہ کاش یہ معاملہ سب کیلئے واقعی Sensitive ہوتا۔