فدک، سیدہ سلام اللہ علیھا کا انتظام
میں بچپن میں جب کبھی بھی اپنے بزرگوں سے فدک کے معاملے پر قاضی سعید الرحمن اور ایک شیعہ عالم دین (غالبا مولانا اسماعیل دیوبندیؒ) کے مناظرے کا احوال سنتا تھا تو سوچتا تھا کہ معلوم نہیں مناظرے کا اختتام واقعی ایسے ہوا ہوگا جیسا میرے بزرگ بیان کرتے ہیں؟ کیا واقعی شیعہ عالم دین نے مناظرے کے آخری لمحات میں یہ کہا ہوگا کہ بی بی سلام اللہ علیھا گواہ رہیئے گا، یہ لوگ آج بھی آپؑ کو ایک “عام عورت” سمجھتے ہیں۔ کیا واقعی قاضی سعید الرحمن روتے ہوئے مناظرے دستبردار ہوگئے ہونگے؟ کیا فدک واقعی اس طرح جذبات کو اپیل کرکے باضمیر انسان کو ضمیر کی عدالت میں لا کھڑا کرتا ہے جہاں بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں سوائے ہاتھ باندھ کر اپنی پشیمانی اور “بے بسی” کا اظہار کرنے کے اور کچھ ممکن نہیں ہوتا؟ کیا یہ درست ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے بسی کی زنجیر توڑ کر قاری سعید الرحمن کی طرح اعلان کر دیتے ہیں کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ “رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ع حق پر تھیں” اور جو بے بس ہوتے ہیں وہ چاہ کر بھی یہ نہیں کہہ پاتے۔
۔
مجھے اس بے بسی پر اکثر رحم آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فخر بھی محسوس ہوتا ہے کہ مکتب اہلیبیت علیھم السلام سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہم نے دنیا جہاں کے طعنے اور فتوے سہہ لیے لیکن کبھی دو کشتیوں کے سوار نہ بنے۔ کشتی وہی چنی جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے “سفینہ نجات” کہا۔ اس ایک کشتی کا سوار بننے کا فائدہ یہ ہوا کہ کبھی بے بسی اور مجبوری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ بس جو نجات کی اس کشتی کے مقابل و مخالف نظر آیا، اس سے دوری اختیار کر لی۔۔مجھے بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جن کے اندر قاضی سعید الرحمن جیسی “ہوک” اٹھتی رہی۔ لیکن مجبوری اور بے بسی کو پس پشت ڈال کر سیدہ سلام اللہ علیھا کی صداقت کی گواہی دے دینا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ اس بے بسی اور مجبوری کی زنجیر کو توڑنا پل صراط عبور کرنے جیسا مرحلہ ہے۔ اس لیے یہ سب بس ہاتھ باندھے بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں شرمندہ کھڑے رہتے ہیں۔
۔
یہ اس معاملہ فدک کی تاثیر ہے جسے بعض لوگ “فقط ایک باغ” کہہ کر بری الذمہ ہوتے رہے۔ بقول علامہ طالب جوہریؒ ، بی بی ؑ خرموں کا مطالبہ کرنے نہیں گئیں تھیں بلکہ یہ سوال سامنے رکھنے گئیں تھیں کہ آیا تم لوگ مکمل قران پر ایمان رکھتے ہو یا فقط نصف پر؟ علامہ طالب جوہریؒ کے مزید جملے ہیں کہ بی بیؑ نے دراصل یہ ثابت کیا کہ کل میرے باپؐ نے حدیث لکھنے کیلئے قلم مانگا تو تم نے کہا قران کافی ہے اور آج میں نے آیت سنائی تو کہہ رہے ہو حدیث کافی ہے۔
یہ فقط ایک باغ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ انتظام سیدہ سلام اللہ علیھا ہے جو رہتی دنیا تک ہر باضمیر مسلمان کے اندر قاضی سعید الرحمن والی “ہوک” پیدا کرتا رہے گا۔ کوئی قاضی سعید الرحمن کی طرح روتا ہوا اعلان کردے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول ص کی بیٹی ؑ حق پر تھیں اور کوئی بے بسی و مجبوری کے عالم میں بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا ہاتھ جوڑ کر کھڑا رہے گا جیسے دل میں اقرار کر رہا ہو لیکن زبان سے کہنے کے قابل نہ ہو۔
یہی سیدہ سلام اللہ علیھا کا انتظام ہے، یہی جاگیر فدک کا اثر ہے۔