ایک خاندان میں ایک ہی برس میں یا کچھ برس کے وقفے سے پیدا ہونے والے بچوں میں عموما بہترین دوستی ہوا کرتی ہے اور یہ تعلق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ امام حسنؑ ابنِ علیؑ، امام حسینؑ ابنِ علی اور جنابِ مسلم بن عقیلؑ کا تعلق بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ امام حسنؑ اور مسلم بن عقیلؑ ایک ہی برس دنیا میں تشریف لائے جبکہ امام حسینؑ کی آمد ایک برس بعد ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین ہستیوں کے درمیان مضبوط تعلق بچپن سے پروان چڑھتا ہوا، میدانِ جنگ تک پہنچا جہاں یہ شانہ بشانہ لڑے اور پھر کوفہ میں یہ تعلق اپنی معراج پر ایسے پہنچا کہ تاریخ اُنہیں آج سفیرِ حسینؑ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مولانا کمیل مھدوی کا جملہ نقل کرتا چلوں کہ حسینؑ اللہ کے سفیر تھے اور مسلمؑ، حسینؑ کے سفیر تھے۔
۔
جنابِ مسلم بن عقیلؑ کے والد جنابِ عقیل بن ابی طالبؑ سے کون واقف نہیں۔ یہ سرکارِ ابو طالبؑ کے فرزند تھے، مولائے کائناتؑ کے بھائی تھے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی۔ جنابِ ابو طالبؑ کے چار فرزند تھے، طالب، جعفرؑ، عقیلؑ اور امام علیؑ۔ جنابِ عقیلؑ علمِ انساب کے ماہر تھے، لوگ ان سے علمِ انساب سے متعلق سوال پوچھا کرتے تھے۔ یہ وہی عقیل ابن ابی طالبؑ تھے جن سے امام علیؑ نے سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت و وصال کے بعد مشورہ مانگا تھا کہ اُنہیں کسی ایسے خاندان کے خاتون سے عقد کرنا ہے جو بہادروں کا خاندان کہلاتا ہو۔
لہذا یہ جنابِ عقیلؑ ہی تھے جنہوں نے ایک ماہ کی مہلت طلب کرنے کے بعد امام علیؑ کو جنابِ فاطمہؑ بنتِ حُزام الکُلابیہ سے عقد کرنے کا مشورہ دیا تھا، جنہیں بعد ازاں تاریخ نے اُم البنینؑ کے نام سے یاد رکھا۔ جن کا شمار اُن چار ہستیوں میں ہوتا ہے جنہیں باب الحوائج کا لقب ملا اور سب سے اہم یہ کہ یہ اُس ہستی کی والدہ ہیں جسے کوئی ابا الفضلؑ کہتا ہے، کوئی شہنشاہِ وفاؑ، کوئی عبد الصالحؑ، کوئی ساقی العطاشی الکربلا اور کوئی عباسؑ ابنِ حیدرِ کرارؑ۔ وہ ہستی جسے زہراؑ نے بیٹا کہا اور وہ ہستی جو تمنائے علیؑ المرتضیؑ کہلائی۔ وہ ہستی، کہ جب بوقتِ رخصت امام علیؑ نے تمام بچوں کا ہاتھ امام حسنؑ المجتبی کے ہاتھ میں دیا تو حسینؑ کا ہاتھ اِس ہستی کے ہاتھ میں دیا۔
کیا عجیب بات ہے کہ میں تحریر جنابِ مسلم بن عقیلؑ کے بارے میں لکھ رہا ہوں اور قلم مجھے کھینچ کر درِ سرکارِ ابوالفضلؑ پر لے آیا۔ یہ خاص تعلق ہے، گناہگاروں، خطا کاروں اور حاجت مندوں کا اس در کے ساتھ، بہت ہی منفرد تعلق۔
۔
جنابِ عقیلؑ کے تین بیٹے تھے اور دو بیٹیاں۔ آپ کی زوجہ کا نام جنابِ عالیہؑ تھا جو فارس سے تعلق رکھتی تھیں۔ جنابِ عقیلؑ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ واقعہ کربلا میں اُن کے خاندان کے سب سے زیادہ افراد نے شہادت پیش کی۔ ان میں آپ کے بیٹے بھی شامل ہیں اور پوتے بھی۔
۔
مسلم بن عقیلؑ کی زوجہ کا نام رقیہؑ تھا جو امام حسینؑ کی بہن تھیں۔ آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی، جس کا نام حمیدہ یا عاتکہ تھا، یہ بیٹی عمر میں امام حسینؑ کی لاڈلی دختر، سکینہ بنت الحسینؑ کی ہم عمر تھی۔ طفلانِ مسلمؑ کے نام سے جانے والے اُن دو معصوم بچوں کا کون بھول سکتا ہے جن کا نام محمدؑ اور ابراہیم تھا۔ یہ وہ معصوم بچے تھے کہ جب ملعون حارث انہیں قتل کرنے کیلئے فرات کنارے لایا تھا، تو انہوں نے اُس سے پوچھا تھا کہ تم ہمیں قتل کروگے؟ اُس ملعون کے اثبات میں سر ہلانے پر ان بچوں نے اُس سے کہا تھا کہ ٹھیک ہے، بس ہمیں فجر کی نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ ان دونوں بچوں نے نماز پڑھی تھی اور پھر ہاتھوں کا فضا میں بلند کر کے کہا تھا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ وہی بچے تھے جنہیں ملعون حارث کی رحمدل بیوی نے اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا۔ جو خواب میں اپنے والد مسلم بن عقیلؑ کو دیکھ کر رو دئے تھے، جو اُنہیں اپنے پاس بلا رہا تھے۔
ان دو معصوم بچوں کا شمار شہدائے کربلا میں ہوتا ہے اور عراق میں مسیب کے قصبے میں ان کا روضہ آج اس کرامت کی وجہ سے مشہور ہے کہ یہاں مریضوں کو شفاء مل جاتی ہے۔ مجھے یہاں روضے کے باہر ایک نوٹس بورڈ پر کاغذ پر لکھی وہ عربی عبارت اب تک یاد ہے جو ایک باپ نے اپنے بیٹے کیلئے لکھی تھی۔ عبارت کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ کہ “طفلانِ مسلمؑ کی کرامت سے اللہ نے میرے بچے کو سرطان کے مرض سے نجات دے دی۔”۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ایسی لاتعداد تحاریر آئے روز وہاں نوٹس بورڈ پر پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ جن بچوں کو عالمِ مظلومیت میں ذبح کیا گیا، آج اُن کے روضے سے مریضوں کو شفاء ملتی ہے۔
۔
مسلم بن عقیلؑ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی ولادت کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کے والد جنابِ عقیل ابن ابی طالبؑ کو ان الفاظ کے ساتھ مبارک دی تھی کہ ” اے عقیلؑ، میں تم سے دو وجوہات کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ تم عقیلؑ ہو اور میرے چچا ابو طالبؑ کے بیٹے ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمہارا بیٹا مسلمؑ، میرے نواسے حسینؑ کی نصرت کرتا ہوا شہید ہوگا۔ “
۔
ہم سب بچپن سے مجالس میں مصائب جناب مسلم بن عقیلؑ سنتے آئے ہیں جن میں اُنہیں بار بار سفیرِ حسینؑ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو امام حسنؑ و حسینؑ کے ساتھ گزرے بچپن سے لیکر کوفہ میں بطور سفیرِ حسینؑ آمد تک کے سفر کے درمیان، مسلم بن عقیلؑ کی شخصیت نے یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی سفیرِ حسینؑ جیسے بلند منصب پر فائز ہونے کے لائق تھے۔ چونکہ بطور سفیرِ حسینؑ، اُن کے کردار میں جذباتیت، مظلومیت اور مصائب کا پہلو اس قدر طاقتور ہے کہ اُن کی شخصیت کے دیگر پہلووں پر گفتگو کم سننے کو ملتی ہے۔ مسلم بن عقیلؑ کی شخصیت کو اگر مختصر لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ شجاعت، امانت اور صداقت کے الفاظ ہونگے۔
مسلم بن عقیلؑ کو امام علیؑ نے اُن کی صداقت و امانت کی وجہ سے زکات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ مسلم بن عقیلؑ نے اس ذمہ داری کو یوں نبھایا کہ زکات اکھٹی کرنے سے لیکر، اُسے مستحقین تک پہنچانے تک کا مکمل حساب کتاب اس قدر امانت داری سے مرتب کیا کہ کبھی ایک درہم کا بھی فرق نہ آسکا۔
۔
جبکہ بات جب شجات کی ہو تو مسلم بن عقیلؑ جمل سے لیکر صفین اور پھر نہراوان تک، امام علیؑ کی فوج کی فرنٹ لائین میں نظر آئے۔ امام حسنؑ و حسینؑ، عمار بن یاسرؑ، حبیب ابن مظاہرؑ، میثمِ تمارؑ، ہانی بن عروہؑ، مسلم ابنِ عوسجہؑ، مالکِ اشترؑ اور مسلم ابنِ عقیلؑ۔ یہ وہ نام تھے جن کا تعارف امام علیؑ نے جنگِ جمل میں بطور اپنے صفِ اول کے جانثاروں کے کروایا تھا۔ یہی نام صفین کے معرکے میں موجود تھے۔ اس جنگ میں عمار بن یاسرؑ شہید ہوگئے تھے۔ جبکہ اسی معرکے میں پہلی بار قمرِ بنی ہاشم، ابو الفضل العباسؑ نے صرف ۱۱ برس کی عمر میں شرکت کی تھی۔ خوارج کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ نہروان میں بھی مسلم بن عقیلؑ امام علیؑ کے اہم ترین اور صفِ اول کےجانثاروں میں سے ایک تھے۔ سترہ برس کی عمر میں ترکی کے ایک محاذ پر لڑی جانے والی ایک جنگ کی کمانڈ کرنے والے اور جمل، صفین اور نہروان کے معرکوں میں امام علیؑ کی فرنٹ لائین میں امام حسنؑ و حسینؑ اور دیگر اصحابؑ کے شانہ بشانہ لڑنے والے مسلم بن عقیلؑ کی شجاعت کا عالم کیا ہوگا، اس کیلئے مزید مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا لکھ دوں کہ بنی ہاشم میں جن اصحاب کی تلوار مشہور تھی، مسلم بن عقیلؑ اُن میں سے ایک تھے۔
۔
اگر آپ غور کریں تو جن اصحاب کے نام اوپر لکھے گئے، ان میں سے اکثر اُس وقت کوفہ میں موجود تھے جب امام حسینؑ نے مکہ سے کوفہ کیلئے سفر اختیار کیا، سوائے عمار بن یاسرؑ اور مالکِ اشترؑ کے، جو شہید ہوچکے تھے۔ حبیب ابنِ مظاہر کوفہ میں تھے، ہانی ابن عروہؑ بھی، مسلمؑ ابنِ عوسجہؑ بھی، میثمِ تمارؑ بھی، مسلم بن عقیلؑ بطور سفیرِ حسینؑ یہاں پہنچ چکے تھے اور مختار ثقفیؑ بھی یہیں موجود تھے۔ جبکہ امام حسینؑ کے ہمراہ صفین کے معرکے میں محض ۱۱ برس کی عمر میں شجاعت کے جوہر دکھانے والے ابوالفضلؑ بھی کوفہ آرہے تھے۔ یعنی جمل سے لیکر نہروان تک کی جنگوں کا نقشہ ذہن میں رکھیں تو کوفہ میں امام حسینؑ کی راہ تکنے والوں میں امام حسنؑ، مالکِ اشترؑ اور عمار بن یاسرؑ کے علاوہ وہ سب لوگ موجود تھے، جو اُن کے والد امام علیؑ کی قیادت میں جمل، صفین اور نہروان کے معرکے میں صفِ اول میں لڑ چکے تھے۔ بالخصوص حبیب ابنِ مظاہرؑ جن کا امام حسینؑ کے نام خط بھی اُن ۱۲ ہزار خطوط میں سے ایک تھا جو کوفہ سے لکھے گئے۔ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ نے اپنی کتاب حدیثِ کربلا میں اس خط کا متن نقل کیا ہے اور چند ایک دیگر خطوط کے متن بھی نقل کیے ہیں۔
اس سے ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوفہ کا نقشہ ویسا ہرگز نہ تھا جیسا کہ عموما بتایا جاتا ہے، جس کا مقصد کوفہ کو بے وفائی کا استعارہ ثابت کرنا ہوا کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت کافی مختلف ہے۔
کوفہ میں مختار ثقفی کا پانچ ہزار سپاہیوں کا لشکر تھا، جسے ابنِ زیاد نے کوفہ کی سخت ترین جیل میں قید کیا، اسی جیل میں میثمِ تمارؑ بھی قید ہوئے، جنہیں ابنِ زیاد نے ۲۲ ذی الحجہ کو پھانسی دے دی۔
اسی مختار ثقفی نے واقعہ کربلا کے بعد چن چن کر قاتلانِ امام حسینؑ سے بدلا لیا، مختار ثقفی کے لشکر میں مالک اشتر کا بیٹا ابراہیم بن مالک اشترؑ بھی شامل تھا جبکہ اُن کا دوسرا بیٹا اسحق بن مالکِ اشتر کربلا میں شہید ہوا۔ روایات کے مطابق حبیب ابن مظاہرؑ کے بعد اسحقؑ وہ دوسرا شہید تھا کے ہاتھوں سب سے زیادہ یزیدی جہنم واصل ہوئے۔
اسی کوفہ میں ہانی ابن عروہؑ اپنے ۱۲ ہزار کے لشکر کے ساتھ موجود تھے، جمل، صفین و نہروان میں امام علیؑ کے سپاہی۔ مسلم ابن عوسجہؑ موجود تھے جن کے گھر سفیرِ حسینؑ مسلم بن عقیلؑ کے ہاتھ پر ہزاوں لوگوں نے امام حسینؑ کی بیعت کا حلف لیا تھا۔ کوفہ میں مسلم بن عوسجہؑ کا کردار بے انتہا اہم تھا جو بعد ازاں کربلا میں اپنے بیٹوں کے ہمراہ شہید ہوئے اور حرم امام حسینؑ میں گنجِ شہیداں میں دفن ہوئے۔
۔
لیکن پھر یزید ملعون، ابن، زیاد ملعون کو کوفہ کو گورنر مقرر کرتا ہے اور ابنِ زیاد رات کی تاریکی میں بھیس بدل کر، چہرہ چھپا کر اس انداز سے کوفہ میں داخل ہوتا ہے جیسے حسینؑ ابنِ علیؑ کوفہ پہنچ گئے ہوں۔ لوگ اُسے (معاذ اللہ) حسینؑ ابنِ علیؑ سمجھ کر خوش آمدید کہتے رہے۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ ہم سب جانتے ہیں۔
ابنِ زیاد کا جاسوس معقل، مسلم بن عوسجہؑ کی مخبری کرتا ہے اور پتا چلاتا ہے کہ مسلم بن عقیلؑ کہاں ہیں۔ کوفہ میں مارشل لاء جیسی صورتحال کا نفاذ ہوا، شہر کی ناکہ بندیاں کردی گئیں، مسلم بن عقیلؑ کو اپنے گھر میں مہمان رکھنے والے ہانی بن عروہؑ کو طلب کیا جاتا ہے اور مسلم بن عقیلؑ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، انکار پر ہانی بن عروہؑ قید کردئے جاتے ہیں اور پھر بعد ازاں اُنہیں قتل کردیا جاتا ہے۔
پھر وہ وقت آتا ہے کہ جس کوفہ میں آمد پر نماز کی امامت کرواتے ہوئے مسلمؑ کے عقب میں ہزاروں مقتدی موجود تھے، اسی کوفہ میں مسلمؑ موجود ہیں لیکن مقتدی کوئی نہیں۔ بقول مرحوم علامہ اظہر حسن زیدی کوفہ میں مسلمان تو بہت تھے مگر “مسلم” فقط ایک۔
۔
سفیرِ حسینؑ گرفتار ہوئے اور انہیں دارالامارہ کی چھت پر لے جایا گیا۔ ابنِ زیاد نے وصیت دریافت کی اور سفیرِ حسینؑ نے تین وصیتیں کیں۔ پہلی یہ کہ میری تلوار بیچ کر میرا قرض ادا کردیا جائے، دوسری یہ کہ مجھے اسلامی طریقے سے دفن کیا جائے اور تیسری یہ کہ میرے آقا حسینؑ کو مطلع کیا جائے کہ وہ کوفہ نہ آئیں۔
اس کے بعد جو ہوا، وہ ہم مصائب میں سنتے آئے ہیں، مجھ میں لکھنے کی سکت نہیں۔ ہاں یہ ضرور لکھوں گا کہ جب مسلمؑ کی شہادت کی خبر امام حسینؑ تک پہنچی تو آپؑ نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ کر سب سے پہلے مسلمؑ کی اُس لاڈلی بیٹی حمیدہ یا عاتکہ کے سر پر ہاتھ پھیرا جو بہت اشتیاق کے ساتھ انتظار کررہی تھی کہ کوفہ میں اُس کی ملاقات اپنے بابا سے ہوگی۔ کچھ تزکرہ رقیہؑ اور سکینہؑ کا بھی ملتا ہے جو جناب مسلم علیہ السلام کی دختر کو گلے سے لگا کر پرسہ دیتی رہی تھیں، اس بات سے بے خبر کہ دس محرم کو اُنہیں پرسہ دینے والا کون ہوگا۔
کہتے ہیں کہ ہانی ابن عروہؑ اور مسلم بن عقیلؑ کے لاشوں کو پورا دن کوفہ میں گھسیٹا گیا اور پھر سرشام بے گور و کفن صحرا میں چھوڑ دیا گیا۔ یعنی شہادت جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کا دن بزرگ و باوفا صحابی جناب ہانی ابن عروہ رض کی دردناک شہادت کی یاد بھی دلاتا ہے۔
میثم تمارؑ کی بیوہ نے مسجدِ کوفہ میں ان دونوں کی تدفین کا بندوبست کیا تھا، نہ صرف یہ بلکہ یہ خاتون ان دونوں کی قبروں کی مجاوری بھی کرتی رہی۔ آج مسجد کوفہ میں مسلم بن عقیلؑ کا روضہ ہے، ہانی بن عروہؑ کا روضہ ہے، مختارِ ثقفی کا روضہ ہے اور مقامِ ضربتِ امام علیؑ بھی یہیں ہے۔ اور اسی مسجدِ کوفہ سے کچھ ہی فاصلے پر میثمِ تمارؑ کا روضہ ہے۔ جیسے مسجد کوفہ کا مجاور ہو۔
۔
اس تحریر میں ایک جگہ میں ںے طفلانِ مسلمؑ کا ذکر کیا ہے، مجھے یاد ہے کہ میرے گھر میں کوئی نذر ہو، حاضری ہو یا بالخصوص روزِ عاشور فاقہ شکنی سے پہلے دی جانے والی نذر ہو۔ ان میں طفلانِ مسلمؑ اور مسلم بن عقیلؑ کی نذر ضرور شامل ہوتی ہے۔ ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاید خوشی کے مواقع پر بھی جو نذر دی جاتی ہے، اُن میں بھی یہ نام اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
آپ جب عید الاضحی کی نماز پڑھیں گے، قربانی کی سنت ادا کرینگے۔ ایسے میں دل ہی دل میں ایک بار سفیرِ حسینؑ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام اور ان کے معصوم بچوں کو ضرور یاد کرلیجئے گا۔ یہ ذبحِ عظیم کے پہلے شہید ہیں۔