عربی کا لفظ “مشی” جس کے معنی ہیں بالقصد ایک جگہ سے دوسری جگہ چلنا. عہدِ حاضر میں یہ لفظ نجف سے کربلا پاپیادہ سفر کرنے کے لئے رائج ہوگیا ہے. جو لفظ ِامام حسین علیہ السلام سے منسوب ہوجائے وہ پوری دنیا میں عظمت کے مدارج طے کرلیتا ہے اسی طرح امامِ مظلوم کے تصدق آج پوری دنیا سے بلا تفریقِ مذہب و مسلک امامؑ کے چہلم کے موقع پر زائرین عراق میں جمع ہوتے ہیں اور نجف سے کربلا پیدل سفر کرتے ہیں جسے مشی کہا جاتا ہے.
یہ سفر نوحہ، مرثیہ، سلام، ماتم و گریہ کرتے ہوئے طے ہوتا ہے اور زائرین کی خدمت کے لئے وہاں کے مسلمان رات دن ایک کر دیتے ہیں.
مجھ طالب علم کے محدود مطالعے کے مطابق لفظ مشی، قرآنِ پاک میں ١١ مقامات پر آیا ہے:
سورہ نور آیت ۴۵، سورہ لقمان آیت ١٩، سورہ فرقان آیت 7، سورہ قصص آیت ٢۵، سورہ ملک آیت ٢٢، سورہ طہ آیت ۴٠۔
سورہ لقمان کی آیت سے ایک بہت ہی لطیف نکتہ بھی نکلتا ہے:
واقصد فی مشیک
ترجمہ: اپنی مشی (چلنا) میں اعتدال رکھو۔
مجھ طالب علم کی رائے کے مطابق، چلنے میں اِس سے اچھا اعتدال کیا ہوگا کہ آغازِ سفر مولائے متقیان امام علی علیہ السلام کے روضے سے ہو اور مشی کا اختتام امام حسین علیہ السلام کے روضے پر ہو جہاں بین الحرمین میں سرکارِ باب الحوائج زائرین کے استقبال کے لئے ہاتھوں کو پھیلائے انکے منتظر ہوں۔
بقول مرزا دبیر ؔ
شاہِ شہیدحکم یہ دیتےہیں بھائی کو
عبّاس جاؤ زائروں کی پیشوائی کو
اُردو مرثیہ میں روضے کے تقدس اور زائرین کے مرتبہ کے موضوع پر اساتذہ نے بہت لکھا ہے خاص طور پر مرزا دبیرؔ کے متعدد مرثیے روضے کی عظمت و زائر کے موضوع پر لکھے گئے ہیں،
جیسے:
کیا شانِ روضۂ خلفِ بو ترابؑ ہے
کس کا علم حسین ؑکے منبر کی زیب ہے
اس مختصر تحریر میں مشی کے ذکر پر لکھے ہوئے ایک مرثیہ کا تذکرہ بھی مقصود ہے جو آغا نیر اسعدی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری مرثیہ “سفر” میں تحریر کیا تھا۔
نیر بھائی نے یہ مرثیہ جناب یداللہ حیدر صاحب کے گھر منعقد ہونے والے عشرہِ مجالسِ مرثیہ کے لئے لکھا تھا اور 2019 میں یداللہ بھائی کے گھر پر ہی ِاسے پہلی بار پڑھا تھا۔ کیا یادگار مجلس ہوئی تھی، آج تک اس مجلس کا منظر حافظے میں محفوظ ہے۔
نیر اسعدی بھائی فیض بھرت پوری کے شاگرد تھے اور فیض بھرت پوری جناب نسیم امروہویؔ کے شاگرد تھے۔ نیر بھائی کی کچھ عادتیں اپنے اساتذہ جیسی ہی تھیں۔ وہ اپنے قریبی احباب و شاگردوں کو مرثیے کے بند سنا کر رائے طلب کرتے تھے.۔ میں نے ایسا متعدد بار دیکھا جس کا تفصیلی ذکر کبھی اور کروں گا۔
سفر کے موضوع پر لکھتے ہوئے نیر بھائی نے حضرت آدمؑ کا جنت سے دنیا کا سفر، اسلام کا سفر، امامت و ولایت کا سفر، معراج کا سفر، انسان کی عمر کا سفر، انسان کا دنیا سے سفر، آخری حج کا سفر، حضرت مسلمؑ کا سفر، امام حسینؑ کا سفر، قافلہ کا سفر کو شاملِ مرثیہ کیا۔
نیر بھائی کے عزیز شاگرد سید سلطان رضوی نے نشاندہی کی کہ “اُستاد، سفرِ عشق یعنی نجف سے کربلا (مشی) کا بھی ذکر کر دیں ۔ نیر بھائی نے اِس مشوره کو بہت سراہا بھی اور پھر اس مرثیہ کا اختتام اسی پا پیادہ سفر کے ذکر پر کیا۔
مرثیہ کا پہلا بند پڑھئے:
آج پھر راہِ سخن میں ہوا آغازِ سفر
طائرِ فکر ہے آمادۂ پروازِ سفر
بخش دیں صاحبِ معراج جواعجازِ سفر
ہر سخنور سے جداہو مرا اندازِ سفر
بزم میں مرحلۂ فکر و نظر طے ہوجائے
جتنی سرعت سے ہو ممکن یہ سفر طے ہوجائے
پورا مرثیہ ہی اعلی موضوعات سے مزین ہے۔
وقت تھوڑا ہے بہت دور ہے اپنی منزل
سب سفر والے ہیں زہراؑکی دعامیں شامل
اپنی تہذیب میں صدیوں سےعزاداری ہے
سایہ ِ پرچم غازیؑ میں سفر جاری ہے
اب مرثیہ کے آخری تین بند جسمیں “مشی” پر اختتام ہورہا ہے:
اس سفر پر سفرِ عشق کی آنے لگی یاد
جسمیں ہوتی ہےعزاداروں کی لاکھوں تعداد
کربلا تک ہے نجف سے وہ ہُجومِ افراد
یہ سفر معجزہ ہے آپ کا مولا سجادؑ
یادِ شبیرؑ میں ہر چیز ہے مہمانی کی
کہیں لنگر ہیں سبیلیں ہیں کہیں پانی کی
پاپیادہ وہ نجف سے جو سفر ہوتا ہے
یادِ سجادؑ میں ہر اشک گہر ہوتا ہے
روضۂ سبطِ نبیؑ پیشِ نظر ہوتا ہے
ہر قدم سامنے فردوس کا گھر ہوتا ہے
ذکرِ شبیرؑ میں جب راہ سمٹ جاتی ہے
کربلا قدموں سے زائر کے لپٹ جاتی ہے
آخری بند اس دعا کے ساتھ کہ اگلے برس ہم بھی اس سفر عشق میں شامل ہوں:
سفرِ عشق میں شامل جو ہیں قسمت کےدھنی
یاد کرتے ہیں وہ سرورؑ کی غریب الوطنی
ان میں نوحہ کوئی پڑھتا ہے کوئی سینہ زنی
سب کو دیتی ہیں دعا بنتِ رسولِ مدنی
میرے بچوں کو روتے ہیں سدا شاد رہیں
بے وطن کے جو عزادار ہیں آباد رہیں
اپنے بھائی عبّاس نقوی کا شکریہ کہ قائم ٹی وی کے ایک پروگرام میں مدعو کیا جسمیں مشی پر مختصر گفتگو اور مرثیہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اسی کے سبب یہ تحریر لکھی گئی۔
نیر اسعدی بھائی کا غیر مطبوعہ کلام انکے شاگرد سلطان رضوی و بختاور جلد شائع کروا رہے ہیں جسمیں یہ مرثیہ بھی شامل ہوگا۔
ان شاء اللہ