چند برس قبل کی بات ہوگی۔ میں ایک محفل میں موجود تھا جہاں علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ تشریف فرما تھے اور چند احباب ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ گزشتہ مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ اندرون پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں مکتب اہل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کچھ اور باتیں بھی بتائیں۔ مجھے یاد ہے علامہ صاحب نے یہ سن کر کہا تھا کہ اس میں کھڑے ہوکر مجلس پڑھنے والے ان ذاکرین کا بہت بڑا کردار ہے جو کانوں پر ہاتھ رکھ کر مخصوص انداز کے ساتھ مجلس پڑھتے ہیں۔
۔
علامہ صاحب کی بات حقیقت پر مبنی تھی۔ یہ ذاکرین ہی ہیں جو عرصہ دراز سے اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں دور دراز دیہاتوں میں جاکر مجالس سے خطاب کرتے ہیں اور گلی گلی قریہ قریہ عزائے امام حسین علیہ السلام کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ جہاں بڑے بڑے علماء و خطباء نہیں جا پاتے وہاں یہ ذاکر پہنچتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں میں محبت اہل بیت علیھم السلام کا چراغ روشن کر آتے ہیں۔ نتیجہ اس صورت میں سامنے آتا ہے جس کا ذکر علامہ صاحب کے سامنے کیا گیا تھا۔
۔
بدقسمتی سے ایک عرصہ محیط “محنت” سے انتہائی یکسوئی کے ساتھ “ذاکر” کے لفظ کو لیکر کچھ ایسا پراپگنڈہ کیا گیا کہ خود مومنین کے ایک طبقے نے اِن ذاکرین سے نفرت کا اظہار شروع کر دیا۔ کچھ قصور ان ذاکرین کا بھی ہے کہ ان میں دن بدن تقسیم در تقسیم بڑھتی رہی اور ان میں ایسے عناصر شامل ہوتے رہے جنہوں نے مجلس امام حسین علیہ السلام کے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ دیا لیکن چند برے عناصر کی وجہ سے تمام ذاکرین کی محنت و ریاضت کو نظر انداز کر دینا بھی تو درست طرز عمل نہیں۔
ذاکرین کے خلاف مخصوص نفرت کا عنصر اس قدر منظم انداز میں پروان چڑھایا گیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے حق میں بولنا بھی دشوار ہوگیا۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد یے کہ کچھ عرصہ قبل ایک مشہور صاحب عمامہ منبر پر بیٹھ کر یہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ہمیں لفظ “ذاکر” کا استعمال ہی ختم کر دینا چاہئے۔ ان سے سوال پوچھا جانا چاہئے تھا کہ امام حسین علیہ السلام کا ذاکر کہلوانا تو اعزاز کی بات ہے، آپ کیوں اس لفظ کا ذکر تحقیر آمیز انداز میں کر رہے ہیں؟ ہمارے بزرگ علماء تو فخر سے خود کو ذاکر امام حسین علیہ السلام کہلوایا کرتے تھے۔ اس طرز عمل کا پس منظر صرف یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں میں ذاکرین سے نفرت کو بڑھایا جائے۔
۔
آج نوید عاشق بی اے جیسے معروف ذاکر اہل بیت علیھم السلام کی شہادت نے میری طبعیت بے انتہا بوجھل کر دی ہے۔ میں نے بھلے انہیں بہت نہیں سنا تھا لیکن ان کے اور ان کے والد کے نام کے پوسٹر ہمیشہ کربلا گامے شاہ کی دیواروں میں دیکھتا آیا۔ مجھے شدید افسوس ہو رہا ہے دور دراز علاقوں سے لیکر بڑے شہروں تک عزائے حسینی میں اپنے حصے کی نوکری ادا کرنے والے ان لوگوں کے ساتھ ہم نے وہ سلوک نہیں کیا جس کے یہ حقدار تھے۔ بڑے بڑے “قلعوں” میں رہنے والے ان لوگوں کو ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں جو نام نہاد “وحدت” کی محبت میں پہلے ہی اپنے بیشتر عقائد سے منحرف ہو چکے۔ مسئلہ نوید عاشق بی اے جیسے ذاکرین کا ہے جن کے خلاف خود اپنوں کے دلوں میں اتنی نفرت بھر دی گئی ہے کہ وہ ان کی محنت و ریاضت کے بجائے انہیں صرف اور صرف تحقیر آمیز القابات کے زرئعے پکارنا جانتے ہیں۔ کاش انہوں نے اسی نفرت کا اظہار محفوظ قلعوں میں بیٹھے ان عناصر کے خلاف کیا ہوتا جو آج آئے روز مکتب اہل بیت علیھم السلام کے عقائد مسخ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی لوگ مسلسل ان ذاکرین کے خلاف “اصلاح و بیداری” کے نام پر زہر اگلتے آئے۔
۔
میری دعا یے کہ نوید عاشق بی اے کی شہادت پاکستان کے تمام ذاکرین کیلئے اپنے درمیان موجود تقسیم کو ختم کرنے کا وسیلہ بنے۔ ان کے قتل میں ملوث عناصر سے تو ہم سب ہی واقف ہیں لیکن کچھ سوالات ہمیں خود سے بھی پوچھنے ہونگے۔ جن میں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا عزائے حسینی میں اپنے حصے کی نوکری ادا کرنے والے ان ذاکرین کے خلاف ایک خاص طرز کا تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا درست طرز عمل ہے؟ کیوں کہ اس طرز عمل کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ان ذاکرین کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنا کر گویا ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خود انہیں دور حاضر کے یز یدیوں کے سامنے پھینک دیا جائے۔