متفرق موضوعات

میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے گھر میں چھٹے امام اہلیبیت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب نذر یعنی کونڈوں کی نذر کا اہتمام ہوتے دیکھا۔ رات گئے تک نیاز کھانے کیلئے آنے والوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ میری والدہ بہت خلوص اور اہتمام کے ساتھ اس نذر کا اہتمام کرتی آئی ہیں۔ نیاز کھانے کیلئے آنے والوں میں شیعہ اور سنی کی کبھی تفریق نہیں رہی۔ بچپن میں بھی یہی دیکھا کہ آس پاس کے اکثر اہلسنت نہ صرف خود اس نذر کا اہتمام کرتے تھے بلکہ ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ اگرچہ ناصبیوں کے اُموی پراپگنڈہ نے اس خوبصورت روایت پر منفی اثر ڈالا ہے لیکن اب بھی اہلسنت کے ہاں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب اِس نذر کا اہتمام ہوتا ہے۔
۔
عموما کونڈوں کی نیاز کا اہتمام کرنے والے نیاز کے اوقات بتا دیتے ہیں۔ مثلا کہیں نماز فجر کے وقت سے شروع ہوکر دوپہر تک نیاز کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کہیں کچھ تاخیر سے شروع ہوکر سہ پہر تک، کہیں شام تک اور کہیں دوپہر میں شروع ہوکر رات تک۔ کہیں سلسہ صبح سے شروع ہوکر رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ لوگ آتے رہتے ہیں، دسترخوان پر بیٹھتے رہتے ہیں اور صاحب خانہ بہت خلوص کے ساتھ انہیں نیاز پیش کرتے رہتے ہیں۔ پورا گھرانہ اس نذر میں کسی نہ کسی طرح اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ کھانے کے اہتمام سے لیکر آنے والوں کی تواضع تک، گھر کا ہر فرد اس دن انتہائی مصروف رہتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کوئی مومن بھوکا نہ چلا جائے۔ موبائل فونز اور وٹس ایپ نے رواج بدل دیا ورنہ میں کبھی سائکل پر اپنی چھوٹی بہن کو بٹھا کر گھر گھر کونڈوں کی نیاز کا بلاوا دینے جایا کرتا تھا۔
۔
میرے گھر کونڈوں کی نذر رات کے وقت بڑھا دی جاتی ہے۔ بہت برس پہلے جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو کونڈوں کے روز جب رات گئے نذر بڑھ چکی اور سب گھر والے تمام دن مصروفیت کے بعد سامان سمیٹنے اور صفائی وغیرہ سے فراغت کے بعد آرام کی غرض سے بیٹھ گئے تو اچانک دروازے پر کسی نے بیل بجائی۔ غالبا ساڑھے گیارہ کا وقت ہوگا۔ میں یہ کہتا ہوا دروازہ کھولنے گیا کہ اگر کوئی نیاز کیلئے آیا ہوگا تو بتا دوں گا کہ نیاز تو کافی دیر ہوئی ختم ہوچکی۔ لیکن پیچھے سے والدہ کی آواز آئی کہ کوئی نذر کیلئے آیا ہو تو منع مت کرنا۔ میں نے دروازہ کھولا تو ایک دور کے جاننے والے باہر کھڑے تھے اور بہت شرمندگی سے پوچھ رہے تھے کہ انہیں کافی تاخیر ہوگئی کیا نذر ابھی جاری ہے۔ میں نے انہیں اندر بلایا ڈرائینگ روم میں بٹھایا اور والدہ سے کہا کہ زیادہ تر چیزیں ختم ہوچکی ہیں خاص طور پر پوریاں ۔ اب آپ کیا کھلائیں گی مہمان کو؟ اس وقت تو کوئی تندور بھی کھلا نہیں ہوگا۔ میری والدہ حسب معمول اللہ مالک ہے کہہ کر اٹھیں اسی وقت آٹا گوندھا اور نذر کیلئے آنے والے مہمان کیلئے اسی خلوص کے ساتھ گرم روٹیاں بنا کر دیگر میسر لوازمات کے ساتھ میرے ہاتھ ڈرائینگ روم میں بھجوا دیں جس خلوص سے انہوں نے تمام دن آنے والوں کی خدمت کی تھی۔ آنے والے اس مہمان نے نیاز کھائی ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ تمام دن کی تھکی ہوئی میری والدہ نے اس قدر خوشی خوشی دوبارہ سب کچھ کیسے کرلیا۔

سوشل میڈیا نے بہت سے ابہام اور غلط فہمیاں دور کی ہیں۔ بہت کچھ جو لوگ نہیں جانتے تھے، وہ انہیں جاننے کو ملا ہے۔ اسی سوشل میڈیا کی بدولت دیکھنے والوں کو یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ اہل تشیع کے ہاں نہ صرف تقریبا تمام سال ہی اہلیبیت علیہ السلام سے منسوب غم یا خوشی سے متعلق مخصوصی ایام کی یاد دہانی کا سلسہ جاری رہتا ہے بلکہ ہر تاریخ کی مناسبت سے مجالس اور محافل کا انعقاد بھی انتہائی منظم انداز سے جاری رہتا ہے۔ شاید ہی کوئی ہجری مہینہ ہوگا جس میں ہمارے ہاں کسی غم یا خوشی کی مخصوصی تاریخ کے حوالے سے کسی کسی مجلس یا محفل کا انعقاد نہ ہوتا ہوگا۔ اس کے علاوہ دسترخوان امام حسن علیہ السلام، رجب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی نذر، 15 شعبان کی نذر اور اسی طرح مختلف نذر و نیاز کا سلسلہ تمام سال جاری رہتا ہے۔ یہ سب اہتمام انتہائی خلوص اور مودت کے جذبے سے کیا جاتا ہے۔ لہذا ایک بات بہت خصوصیت کے ساتھ ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ محمد ص آل محمد ع کے غم میں مغموم اور خوشی میں خوش ہونے والوں کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ کسی دشمن اہلیبیت علیہ السلام کے مرنے کی خوشی میں کچھ اہتمام کرنا گوارہ کریں، یعنی ہمیں کوئی سروکار ہی نہیں۔ اس دسترخوان کی نسبت فقط امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہے۔ حاکم شام کے دسترخوان سے ہمارا کیا لینا دینا؟ یہ مودت اور خلوص کا جذبہ ہے جو میری والدہ کی طرح کونڈوں کی نذر کا اہتمام کرنے والوں کو رات گئے بھی نذر کیلئے آنے والے کسی مہمان کیلئے گرم روٹیاں بنا کر اس کی تواضع کرنے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔
۔
لہذا کونڈوں کے بارے میں پراپگنڈہ کرنے والے ناصبیوں پر لعنت بھیج کر نذر ِامام جعفر صادق علیہ السلام خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں۔ نذر کا اہتمام کرتے ہوئے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ فرمان مبارک بھی ذہن میں رکھیں:

“جو شخص الله تعالٰی کی محبت میں کسی مومن کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کے لئے اس شخص کے مساوی ثواب ہے، جو لوگوں میں سے “فیام” کو کھانا کھلائے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا یہ “فیام” کیا چیز ہے، فرمایا؛ لوگوں میں سے ایک لاکھ افراد۔”
(اصول كافى، ج 2، باب اطعام مؤمن)