دلیل، جذبات اور مکتبِ اہل بیتؑ
دلیل اور جذبات دونوں کی اہمیت مسلم ہے۔ نہ دلیل جذبات کی جگہ لے سکتی ہے اور نہ جذبات دلیل کی جگہ لے سکتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات تو جذبات اور دلیل دونوں مل کر ایک طاقتور نظریہ تشکیل دیتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اعلان نبوت کے بعد لوگوں کو توحید اور دین اسلام کی طرف بلایا تو پہلے یہ فرما کر ان کے جذبات کو اپیل کیا کہ لا الہ الا اللہ کہو تاکہ تم فلاح پا جاو۔ یہ ہر زندہ ضمیر والے کے جذبات کو شدت سے اپیل کرنے والے الفاظ تھے کہ کوئی ہستی ہے جو اس کی فلاح اور کامیابی کیلئے فکر مند ہے، جو چاہتی ہے کہ وہ خسارے میں نہ رہے۔ اس کے بعد دلیل اور جذبات دونوں کے ذریعے ذہن انسانی کو دعوت فکر دینے کا سلسلہ چلتا رہا جس کے نتیجے میں تاریخ انسانی میں یہ معجزہ رونما ہوا کہ اعلان نبوت کے بعد فقط تئیس برس کے عرصے کے دوران جو پیغام بنی نوع انسان تک پہنچایا گیا، وہ دنیا کے ایک مرکزی اور بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب قرار پایا، جس دین کو قرآن میں اللہ کا پسندیدہ دین قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ خدا کے نزدیک دین بس اسلام ہے۔ علامہ طالب جوہری اعلی اللہ مقامہ شان رسالت ص کے اس مخصوص پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت فخر سے یہ جملہ کہا کرتے تھے:
“یہ ہے میرے محمدؐ کی طاقت”
۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنا راستہ روکنے والے حر ؑابن یزید الریاحی کو یہ جملہ کہا تھا کہ “حر تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے”۔ یہ جملہ ایسا جملہ تھا جس نے ایک لمحے کے اندر حُرؑ کے جذبات کو اپیل کیا تھا اور ایسا اپیل کیا تھا کہ دلیل تک وہ خود پہنچ گیا تھا۔ اِس جملے نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ جس ہستی کے فرزند امام حسین علیہ السلام ہیں وہ سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا ہیں، میری کیا اوقات اور مجال جو امام حسین علیہ السلام کے اس جملے کے جواب میں کچھ کہنے کی جسارت کروں۔ جذبات نے اس کے دل پر اثر کیا اور دلیل کیلئے اس کی عقل کو آمادہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صبح عاشور اپنے بیٹے اور لشکر کے ہمراہ زارو قطار روتا ہوا امام حسین علیہ السلام کے قدموں میں گرگیا اور قیامت تک کیلئے ایک ایسے استعارے کی صورت امر ہوگیا جس نے ایک شب میں باطل سے حق کی طرف سفر کیا۔
۔
واقعہ کربلا کی قوت اور خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں جذبات اور دلیل، دونوں اپنی معراج پر نظر آتے ہیں۔ کربلا دلیل کے متلاشیوں کو دلیل دیتی ہے اور جذبات و احساسات کی اہمیت سمجھنے والے انسانوں کو جذبات و احساسات کا منفرد خزانہ۔ بشرطیکہ ان کا دل دشمنی اہلیبیتؑ کی وجہ سے سیاہ اور سخت نہ ہو۔ کربلا خود سے جڑے ہر انسان کو دلیل بھی دیتی ہے کہ ذبح عظیم کے نام سے پہچانے جانے والا یہ معرکہ حق و باطل کا معرکہ کیوں ہے، اس معرکے نے فتح و شکست کا پیمانہ کس طرح بدل دیا، امام حسین علیہ السلام کی ذات ہر دور کے مظلوم کیلئے پناہ کی حیثیت کیوں رکھتی یے اور اس معرکے نے اسلام محمدی ؐ اور ملوکیت زدہ اسلام کے درمیان حد فاصل کیسے قائم کردی۔ جبکہ جذبات و احساسات کی جو شدت جو ذکر کربلا میں موجزن ہے، ویسی مثال تو تاریخ انسانی میں ملنا محال ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسی دوسری مثال نہ ملے گی جس میں ایک واقعے کو بیتے چودہ صدیاں گزر چکی ہوں لیکن اس کا غم آج بھی اتنا تازہ ہو کہ یہاں مصائب کربلا کا تذکرہ ہو اور وہاں آنکھ سے آنسو بہہ نکلیں۔ یہ کربلا کا جذباتی پہلو ہی ہے جو ایک انسان کو بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اس قدر شدت سے اپیل کر جاتا ہے کہ اس کیلئے اپنے آنسو ضبط کرنا ممکن نہیں رہتا۔ آپ کو وہ برطانوی غیر مسلم صحافی یاد ہوگی جو کربلا کے بارے میں ڈاکمینٹری تیار کرنے کربلا گئی تھی اور حرم امام حسین علیہ السلام میں عزاداروں کے ہجوم کو ماتم و گریہ کرتا اور لبیک یا حسین علیہ السلام پکارتے دیکھ کر بے اختیار رو پڑی تھی۔ اپنی آنکھوں سے بہتے بے اختیار آنسو محسوس کرتے ہوئے وہ خود بھی حیران تھی کہ آخر وہ کون سا احساس ہے جس نے میرے دل پر یوں اثر کیا۔
۔
مجھے مکتب اہلیبیت علیھم السلام کی یہ خصوصیت سب سے زیادہ پسند ہے کہ اس میں جذبات اور دلیل، دونوں کا مضبوط اور حسین امتزاج موجود ہے۔ اگر آپ ایک مجلس حسین علیہ السلام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مجلس دراصل دلیل اور جذبات کے مجموعے کا نام ہے۔ مرثیہ اور سوز خوانی جذبات کا اظہار ہے اور خطابت دلیل و برہان کے متلاشیوں کیلئے دعوت فکر۔
مرثیہ خواں جب انیس و دبیر کے مرثیہ پڑھتے ہیں تو وہ سننے والوں کے جذبات کو ان لازوال اشعار کے ذریعے اپیل کرتے ہیں جنہیں لکھے ہوئے صدیاں گزر چکیں لیکن ان کی تاثیر ایسی ہے کہ سننے والے کو چشم تصور میں کربلا کی منظر کشی کروا دیں۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے ائمہ اہلیبیت علیھم السلام نے اپنے جد مولا حسین علیہ السلام کے مصائب سننے کیلئے جس انداز کو ہمیشہ ترجیح دی وہ انداز مرثیہ ہی تھا۔ روز عاشور امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے محب اور عظیم شاعر دعبل خزاعی کا امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے سامنے مرثیہ پڑھنا، امام علیہ السلام کا گریہ کرنا اور پردے کی دوسری جانب تشریف فرما سیدہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا کا غم کی شدت سے غش کھا جانا ایسی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ یہ مثالیں ہمیں جذبات کی اہمیت سمجھاتی ہیں اور جزبات کو غیر اہم سمجھنے والوں کو دعوت فکر دیتی ہیں۔
مجلس امام حسین علیہ السلام میں مرثیہ کے بعد خطابت ہوتی ہے جو دلیل اور منطق کا مرکب ہوتی ہے۔ ذاکر دلیل و برہان کے ذریعے سننے والے کی عقل کو اپیل کرتا یے اور اسے یہ شعور دیتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا چاہنے والا جذبات و احساسات کے معاملے میں بھی کورا نہیں ہوتا اور دلیل و عقل سے بھی عاری نہیں ہوتا۔
۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ گروہ کبھی بھی متاثر نہ کر سکا جو عقلیت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر جذبات کی اہمیت کو جھٹلاتا ہے۔ دلیل کے مقابلے میں جذبات کو ایک غیر اہم احساس ثابت کرتا ہے۔ اس گروہ کا طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنے نظریات میں وزن پیدا کرنے کیلئے جذبات کو کم عقل اور جاہل لوگوں کو شیوہ قرار دیتا ہے۔ اب ایسا شخص کسی بھی نظریہ کا پیروکار ہو، اسے جذبات سے عاری کہنا غلط نہ ہوگا۔ اب تو خود کو شیعہ کہنے والوں بھی ایسے عقلیت پسند “محققین” سامنے آگئے ہیں جن کے افکار جذبات کی عنصر سے اس قدر عاری ہیں کہ ان میں روحانیت کا وہ مخصوص تاثر محسوس ہی نہیں ہو پاتا جو تشیع کا اختصاص ہے۔ تحقیق و اصلاح کے نام پر ایسے افکار کی ترویج کی جاتی ہے جنہیں سن کر دل میں پہلا خیال یہی آتا یے کہ کس قدر بے روح افکار ہیں۔
۔
جتنی عمر گزر چکی اور اِس دوران جو مشاہدہ میں کر سکا اِس کی بنیاد پر میں تو اسی نتیجہ پر پہنچا کہ نظریہ وہی طاقتور ہے جو دلیل اور جذبات کا مجموعہ ہو۔ ظاہر ہے اِس نتیجے تک پہنچنے میں میری رہنمائی کربلا نے کی، جس کا دلیل اور جذبات، دونوں میدانوں میں کوئی ثانی نہیں۔