ساٹھ ہجری کی عیدِ غدیر
اٹھائیس رجب ساٹھ ہجری کو شروع ہونے والے سفرِ حسینؑ کے بارے میں سوچتے ہوئے میں نے چند بار اپنے خیالات لکھنے کی کوشش کی، یہ سوچتے ہوئے کہ سنہ ساٹھ ہجری میں فلاں وقت قافلہ حسینیؑ کہاں پہنچا ہوگا، وہاں کیا گفتگو ہورہی ہوگی اور کیسے حالات ہونگے۔ آج جبکہ ہم نے دو روز قبل عید غدیر منائی تو ذہن میں اچانک خیال آیا کہ ساٹھ ہجری میں اٹھارہ ذی الحجہ کے روز قافلہ حسینیؑ کہاں پہنچا ہوگا؟ وہاں عید غدیر کیسی گزری ہوگی؟
۔
میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ امام حسینؑ اور مولا ابوالفضل العباسؑ نے عید غدیر پر اپنے بابا علی المرتضیؑ کو، اپنے جد رسول اللہؐ کو کیسے یاد کیا ہوگا؟ میں نے سوچا کہ مولا عباس علمدارؑ کو قافلہ حسینیؑ کا علم دیکھ کر خیبر میں اپنے بابا علی مرتضیؑ کے ہاتھ سے پتھر پر گاڑھا ہوا علم بھی یاد آیا ہوگا؟ اور امام حسینؑ کو؟ شاید عصرِِ عاشور کہا جانے والا اپنے بھائی عباسؑ کا یہ جملہ کہ ” مولاؑ، وہ لشکر اب ہے کہاں جس کا میں علمدار ہوں ؟ “
اٹھارہ ذی الحجہ ساٹھ ہجری میں، عالمِ مسافرت میں یہ عید غدیر کیسے گزری ہوگی؟ سیدہ زینبؑ اِس عیدِ غدیر پر کیا سوچا ہوگا؟ کتنا فرق ہوگا عید غدیر پر اپنے بابا کو یاد کرنے میں اور شامِ غریباں میں یاد کرنے میں؟ بچوں نے اُس عیدِ غدیر پر کیا کیا ہوگا؟ سکینہ بنت الحسینؑ اور مسلم بن عقیلؑ کی یتیمہ بیٹی حمیدہ یا عاتکہ نے کیا باتیں کی ہونگی؟
انصارِ حسینیؑ نے بھی غدیر کو یاد کرتے ہوئے بہت کچھ سوچا ہوگا؟ جہاں “من کنت مولاؑ، فھذا علیؑ مولا” کا ورد دہرایا ہوگا تو شاید وہیں مدینہ کی جانب رخ کر کے یہ بھی سوچا ہوگا کہ بے شک آقا و مولا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اُمت کی محبت میں، اُس کی بھلائی کیلئے مکمل انتظام کیا تھا اور میدانِ غدیر میں آقا و مولا علیؑ کا ہاتھ بلند کرکے نعمت تمام ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ رحمت للعالمینؐ نے اپنی اُمت کی بھلائی اور رہنمائی کیلئے اعلان کردیا تھا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اُس اُس کا یہ علیؑ مولا ہے۔ تو پھر اے آقا و مولا محمد رسول اللہؐ! غلطی کہاں پر اور کس سے ہوئی جو آج آپ کا وارث آپ کے لائے دین کی نصرت کیلئے اپنا شہر مدینہ چھوڑ کر، مکہ سے حج چھوڑ کر “مجھ جیسا، یزید(لع) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا” کہتا ہوا ذبحِ عظیم کی تکمیل کیلئے عازمِ سفر ہے؟
۔
اس قافلے حسینیؑ میں علی الاوسط یعنی زین العابدینؑ اور آپ کا چار سالہ فرزند بھی تو موجود ہے، جسے تاریخ نے باقر العلومؑ کے نام سے یاد کیا۔ سوچتا ہوں کہ صاحبِ علم لدنی سید الساجدینؑ نے اس عید غدیر پر شاید اپنے پوتے جعفر الصادقؑ کو بھی یاد کیا ہوگا جس نے آنے والے زمانوں میں کربلا اور غدیر کا تعلق سمجھاتے ہوئے یہ بتانا تھا کہ “ہم کربلا کو یاد کرکے اِس لیے روتے ہیں کہ کہیں غدیر کی طرح تم کربلا کو بھی نہ بھول جاو۔”
۔
میں نے ساٹھ ھجری قافلہ حسینیؑ کی عید غدیر کے بارے میں سوچا اور یہ چند خیالات و سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ تحریر ختم کرتے ہوئے اچانک ایک سوال ذہن میں اورپیدا ہوگیا کہ ساٹھ ھجری رجب کے آخر میں شروع ہونے والے سفرِ حسینؑ کے بارے میں تو میں نے سوچ لیا، قافلہ حسینیؑ کی عید غدیر کو عالمِ تخیل میں دیکھنے کی کوشش بھی کرلی لیکن میں یہ سوچنا بھول گیا کہ اکسٹھ ھجری روز عاشور جب نواسہ رسول ص نے “ھل من ناصر ینصرنا” کی صدا بلند کی ہوگی تو ٹھیک اُس وقت میدانِ غدیر میں کیا ماحول ہوگا؟ سناٹا ، خاموشی، کربلا جیسی اداسی؟ وہی میدان غدیر جہاں لاکھوں مسلمانوں کے سامنے “من کنت مولاؑ فھذا علیؑ مولا” کی صدا بلند ہوئی تھی، اکسٹھ ہجری روزِ عاشور اُسی میدانِ غدیر میں کس قدر سناٹا ہوگا۔ غدیر و کربلا کے درمیان فاصلہ محض فاصلہ نہیں ہے، اِس فاصلے میں ہی وہ غلطی اکسٹھ ہجری کے میدان کربلا اور میدان غدیر کے اس نقشے نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ایک کے بعد ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ سلسہ بے اختیار مرحوم شورش کاشمیری کے لازوال کلام کے ان چند مصرعوں پر آکر رُک گیا:
۔
پھاڑ کے گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم
عرش سے فرش تلک حشر کا نقشہ دیکھا
قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر بھونکے
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا
ابوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی
خود فرشتوں کو دِنایت سے پنپتا دیکھا
اے میری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے اب سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے مجھے اب سوچنے دے