مجالس میں یہ واقعہ اکثر سنا ہے کہ گنداب(ہمدان) میں ایک شرابی اور بدمعاش رہا کرتا تھا جس کا نام علی گندابی تھا۔ اُسی علاقے میں اُس دور کے مشہور ذاکر جناب شیخ حسن بھی رہتے تھے جو انتہائی متقی و پرہیز گار انسان تھے۔ ایک بار روز عاشور وہ کسی دوسرے شہر مجلس پڑھنے گئے جہاں سے واپسی میں اُنہیں کافی دیر ہوگئی۔ اپنے شہر کے دروازے پر پہنچے تو دروازہ بند ہوچکا تھا۔ دروازے پر دستک دی تو اندر سے علی گندابی کی آواز آئی جو شراب کے نشے میں دھت تھا۔ شیخ حسن نے علی گندابی سے دروازہ کھولنے کو کہا۔ علی گندابی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کہ اس تاخیر کا کیا سبب ہے؟ شیخ محسن نے اسے بتایا کہ وہ ذاکر ہیں اور مجلس پڑھ کر واپس آئے ہیں۔ یہ سن کر علی گندابی نے شیخ محسن سے کہا کہ وہ یہاں مجلس پڑھیں میں سنوں گا۔ شیخ محسن نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ مجلس پڑھنے کیلیے منبر کی ضرورت ہوتی ہے اور سامعین کی بھی۔ علی گندابی نے کہا میں سامع ہوں اور خود حالت سجدہ میں جاکر بولا کہ میری پشت پر بیٹھ کر مصائب ابوالفضل العباس علیہ السلام بیان کرو۔ چار و ناچار شیخ حسن نے اُس کی پشت پر بیٹھ کر مصائب بیان کرنا شروع کیے۔ علی گندابی نے شدت سے گریہ کیا اور خود شیخ حسن پر بھی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ جیسی پہلے کبھی نہ طاری ہوئی تھی۔
۔
علی گندابی اِس واقعے کے بعد بہت بدل گیا اور زیارات مقدسہ کیلئے عراق چلا گیا۔ بزرگ مرجع دینی میرزا شیرازی علیہ الرحمہ اُس وقت نجف الاشرف میں مقیم تھے اور نمازِ جماعت کی امامت کروایا کرتے تھے۔ علی گندابی نے اپنا معمول بنا لیا کہ وہ ہر روز میرزا شیرازیؒ کے عین پیچھے اپنا مصلی بچھا کر نماز پڑھتا۔ ایک روز نماز مغربین کے وقت میرزا شیرازی کو مطلع کیا گیا کہ فلاں عالم دین انتقال کر گئے ہیں جس پر میرزا شیرازیؒ نے تاکید کی کہ حرمِ امام علی علیہ السلام سے متصل دالان میں اِن عالم دین کی قبر تیار کی جائے۔ قبر تیار ہوئی لیکن اچانک خبر ملی کہ وہ عالم دین سکتے کے کیفیت میں چلے گئے تھے اور اب اچانک انہیں ہوش آگیا ہے۔ عین اسی وقت میرزا شیرازی کے پیچھے بیٹھا علی گندابی مصلے پر بیٹھے ہوئے چل بسا۔ میرزا شیرازی نے حکم دیا کہ علی گندابی کو حرم امام علی علیہ السلام کے دالان میں بنائی گئی اسی قبر میں دفن کیا جائے۔ گویا وہ قبر شاید بنی ہی علی گندابی کیلئے تھی۔ وہ علی گندابی جو کبھی شرابی تھا بدمعاش تھا۔ لیکن ایسا مقام پاگیا کہ آج اُس کی قبر حرم امیر المومنین علیہ السلام سے متصل ہے۔
۔
آج سے تقریبا سال قبل جب میں نے کھاریاں میں لاوارث دفن ہونے والے شخص کے جنازے کے حوالے سے ایک مختصر تحریر لکھی تھی تو اُس تحریر پر برادر محمد علی رضا نے یہ تبصرہ کیا تھا:
” بعض نشئی دوہرے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق سنی گھرانوں سے ہوتا ہے اور یہ نشہ کرنے کیلئے جب مانگتے ہیں تو نذر اللہ نیاز حسین علیہ السلام کی صدا لگاتے ہیں۔ اکثر مزارات اور آستانوں پر لنگر کرتے اور وہیں رہتے ہیں اور وہاں میسر آنے والے ماحول کی وجہ سے مولائی اور زنجیر زن عزادار بن جاتے ہیں۔ دل میں بے انتہا محبت اہلیبت علیھم السلام سے سرشاری اور عزاداری کی وجہ سے اپنے اِن کو شیعہ سمجھ کر جنازوں میں نہیں آتے اور شیعہ ان کو غیر شیعہ سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں۔ انقلابی شیعہ اِن کو کلنک سمجھتے ہیں اور نتیجہ لاوارث دفنائے جاتے ہیں۔ “
۔
مختلف نیوز ویب سائٹس پر اِس واقعے کی جو تفصیلات شائع ہوئیں تھیں اُن کے مطابق مرحوم کو “ہینی” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گھر والوں نے نشے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ والدہ کا انتقال ہوچکا تھا اور سوتیلا والد زندہ تھا۔ ہینی کے دو چھوٹے بھائی بھی نشے کی وجہ سے انتقال کرچکے تھے۔ تفصیلات کے مطابق ہینی مین روڈ پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرکے گزارا کرتا تھا اور غالبا اسی دوران ٹریفک حادثے کا شکار ہوا۔ ہینی کے جس محلے دار نے یہ تمام تفصیلات بتائیں اُس کے مطابق اُسے یہ تو معلوم نہیں کہ ہینی شیعہ تھا یا نہیں البتہ وہ محرم کے ماتمی جلوسوں میں ہمیشہ نظر آتا تھا۔
۔
جنازہ پڑھانے کیلئے گاوں میں موجود مسجد کے سنی پیش امام سے درخواست کی گئی تو اُس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ متوفی شیعہ تھا لہذا اس کا جنازہ پڑھانا میرے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ جب مولوی نے منع کردیا تو وہاں موجود نمازی کس طرح ایک نشئی کا جنازہ پڑھتے جو شیعہ بھی تھا؟ تفصیلات بتانے والے محلے دار نے یہاں یہ بھی کہا کہ مسجد سے نہ ہی جنازے کا اعلان ہوا اور نہ ہی کوئی اطلاع دی گئی اس لیے کسی کو خبر بھی نہ ہوسکی۔
جن چار لوگوں نے ہینی کی تدفین کی، انہوں نے ہی ایک شیعہ مولانا سے رابطہ کیا اور نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ لہذا اِن شیعہ مولانا نے ہینی کی نماز جنازہ پڑھائی اور یوں ان چار لوگوں نے ہینی کی تدفین انجام دی۔ خدا ان چاروں کو اور ان شیعہ مولانا کو جزائے خیر دے۔
۔
مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اس “نشئی” کے جنازے کی تفصیل پڑھتے ہوئے علی گندابی کا واقعہ کیوں یاد آیا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ تفصیل لکھتے ہوئے بار بار آنکھ کیوں نم ہوتی رہی۔ شاید اس لیے کہ ہینی نام کا یہ “نشئی” بھی محرم کے جلوسوں میں ہمیشہ نظر آتا تھا، ماتم بھی کرتا ہوگا، شاید گریہ بھی کرتا ہوگا؟ شاید یہی وجہ تھی کہ بھلے اُسے کاندھا دینے والے تو فقط چار لوگ ملے لیکن یہ گواہی ضرور میسر آگئی کہ:
“اِس کا خاتمہ خیر پر تھا۔ ”
۔
آج تین سال پہلے لکھی یہ تحریر اس لیے بھی یاد آگئی کہ غالبا گزشتہ سال مولائے متقیان قسیم النار والجنہ امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو نعوذ باللہ جنت کیلئے تقوی کا محتاج ہونے جیسی جسارت کرنے والے ایک اصلاحی واعظ انتہائی بھونڈے، متکبرانہ اور تحقیر آمیز انداز میں ایک ماتمی کے ہاتھ میں چرس کی سگریٹ پکڑا کر نقشہ کھینچ رہے تھے کہ تم یزید ملعون پر لعنت کیوں بھیج رہے ہو؟ تمہاری لعنت سن کر تو یزید بھی کہے گا یہ تو میری فوج کا بندہ ہے۔
میں کسی بھی ماتمی کی غلطی کا دفاع نہیں کروں گا لیکن اصلاح کا جو انداز اِن مصلحین نے اپنا رکھا ہے اس کی بھی کسی صورت تائید نہیں کروں گا۔ کیوں کہ ان لوگوں نے خود کو کسی عزادار اور امام مظلوم علیہ السلام کے تعلق کو جج کرنے کیلئے ایسے منصب پر بٹھا لیا ہے جہاں بیٹھنے کے اور ایسی بھونڈی اور تحقیر آمیز رائے زنی کرنے کے یہ لوگ قطعا اہل نہیں۔ جو شخص موعظہ حسنہ کی بنیادی تعلیم سے کورا ہو وہ اصلاح کے نام پر وہی کرے گا جو “نحن مصلحون” کہنے والے کرتے تھے۔
۔
سوچتا ہوں کہ ایسے واعظ اگر علی گندابی کے دور میں ہوتے تو شیخ حسن نےجو کیا اس کے بجائے علی گندابی کو نفرت سے پرے دھکیل کر کہتے کہ دفع ہو جاو، تم اور مولا ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مصائب سنو گے؟ تم تو خود شمر ملعون کے ساتھی ہو۔
لیکن ظاہر ہے شیخ حسن نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ جانتے تھے کہ وہ کریم ہستیاں ہیں، ان کا کس عزادار سے کیا تعلق ہے یہ ہم نہیں جانتے اور نہ جج کر سکتے ہیں۔ بقول مولانا کمیل مھدوی خدا جانے امام حسین علیہ السلام نے کس سے کیا کام لینا ہے۔ کوئی جیسا بھی ہے کسی نہ کسی انداز سے امام حسین علیہ السلام سے جڑا ہوا تو ہے، اللہ نے ایک نظام تو رکھا ہوا ہے۔ کیا معلوم کب امام حسین علیہ السلام اس پر کرم کردیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک عزادار کی عزت رکھی ہے، اس کی تحقیر مت کریں۔
کیا معلوم کہ اپنوں اور غیروں سے دھتکارا ہوا کھاریاں کا ہینی “اس کا خاتمہ خیر پر تھا۔”کی گواہی پا جائے، شیخ حسن سے مصائب ابوالفضل العباس علیہ السلام سن کر گریہ کرنے والا علی گندابی حرم امیر المومنین علیہ السلام میں دفن ہونے کا اعزاز پا جائے اور تکبر اور زعمِ تقوی کے مارے ہوئےمصلحین دیکھتے رہ جائیں۔